Maktaba Wahhabi

603 - 609
مطالعہ کتب اور ذہانت یوں تو مولانا فراہی رحمہ اللہ کی مجلس میں ہر قسم کے علمی موضوعات پر گفتگو رہتی تھی،لیکن خاص موضوع قرآن ہوتا تھا۔مطالعہ کےلئے ہمیشہ اونچے درجےکی چیزیں منتخب کرتے تھے اورہر چیز کو گہری تنقید کے ساتھ پڑھتے تھے۔کتاب انگریزی کی ہو یاعربی،اس کے حاشیہ پر عربی میں اس کے تمام اہم مباحث پر اپنے تنقیدی نوٹ لکھتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی پڑھی ہوئی کتابیں اہل علم کے لئے بڑی قیمتی چیزیں بن جاتی تھیں۔مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ کے بقول انہوں نے مولانا فراہی رحمہ اللہ کو کبھی دوسرے درجے کی کوئی چیز پڑھتے نہیں دیکھا۔یہی ہدایت وہ برابر اپنے شاگردوں کو بھی کرتے رہتے تھے۔[1] مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کو اللہ عزو جل نے جہاں دیگر بہت سی صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا تھا وہاں آپ کو ذہانت بھی قابل رشک عطا کی گئی تھی۔سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’مولانا حمید الدین فراہی فطرتاً نہایت ذہین،طباع اور نہایت دقیقہ رس تھے۔ان کا ذہن نہایت صاف تھا اور اول ہی وہلہ میں بے کج وپیچ حقیقت کی منزل تک پہنچ جاتے تھے۔ان کا تیر نظر مسائل کی تشریح اور مشکلات کے حل میں ہمیشہ نشانہ پر بیٹھتا تھا۔دماغ اتنا سلجھا تھا کہ کتنا ہی پیچیدہ مسئلہ ہو وہ اس کی اصل تہہ تک پہنچ جاتے تھے۔اور اگر وہ مناظرہ پر اُتر آتے تو کیسی ہی غلط بات ہو وہ اس کی ایسی عمدہ عمدہ دلیلیں پیش کرتے تھے کہ حریف ساکت ہو جاتا تھا اور سمجھ لیتا تھا کہ مولانا کی اصل رائے ہے،مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ مسکرا کر فرماتے کہ یہ تو غلط تھا۔اصلیت یہ ہے۔‘‘[2] مولانا کا طریقۂ تصنیف نہایت سادہ اورمختصر ہوتا تھا۔اسے عیب سمجھئے یا ہنر،کہ وہ لکھنے میں ایجاز واختصار کو بہت پسند کرتے تھے۔اگرچہ یہ اختصار پسندی کہیں ادائے مطلب میں مخل نہیں ہوتی تھی،لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جس بات کودوسرے صفحوں میں بیان کرتے تھے،مولانا اسے چند سطروں میں بیان کر دیتے تھے،ایک ذہین آدمی کےلئے تو یہ طریقہ بہتر ہے بلکہ اس طرزِ تحریر کے سوا وہ کسی اورطرز تحریر کو پسندہی نہیں کر سکتا لیکن ایک عام آدمی اگر پورے غور وفکر کےساتھ مولانا کی کتاب کو نہ پڑھے تو اس کے پلے مشکل ہی سے کچھ پڑے گا۔[3] استغناء مولانا فراہی رحمہ اللہ کی طبیعت میں حد درجہ استغناء ودیعت کیا گیا تھا۔حیدر آباد میں قیام کے دوران نظام حیدرآباد نے مولانا سے کئی دفعہ ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا لیکن مولانا صرف ایک بار بادلِ ناخواستہ ملاقات پر راضی ہوئے۔ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ اس ملاقات کا حال یوں بیان کرتے ہیں: ’’حیدر آباد میں مولانا اپنے علمی وتعلیمی فرائض ومشاغل کےسوا ہر چیز سے نہ صرف بالکل الگ تھلگ رہے بلکہ وہاں کے حالات سے سخت بیزار بھی رہے۔اپنے کئی سال کے زمانۂ قیام میں نظام حیدر آباد سے اُن کی خواہش کے باوجود ایک مرتبہ بھی ملاقات
Flag Counter