Maktaba Wahhabi

1103 - 609
ترجيح أحدهما على الآخر نسرد مواقع الاختلاف" [1] کہ ہم نے کہا کہ چڑیاں مکہ کو مقتولین کی لاشوں سے صاف کرنے کیلئے آئی تھیں۔حالانکہ مشہور روایت ہے کہ وہ اصحابِ فیل کو سنگسار کرنے کیلئے بھیجی گئی تھیں۔ہمارا یہ دعویٰ چونکہ مشہور روایت کے بالکل خلاف ہے اس وجہ سے ضرورت ہے کہ ہم روایات پر تفصیل کے ساتھ بحث کریں۔روایات پر غور کرنے سے ہمارے سامنے دو فریق آتے ہیں اور دونوں فریق واقعہ کی تصویر دو مختلف طریقوں سے کھینچتے ہیں۔ان میں سے ایک رائے کو ترجیح دینے سے پہلے ضروری ہے کہ دونوں کے مختلف فیہ پہلووں کو الگ الگ دیکھ لیا جائے۔ حج کے موقع پر ’منی‘ میں حجاج کی طرف سے جمرات کی رمی کو بھی مولانافراہی رحمہ اللہ سیدنا ابراہیم کے ساتھ متعلّق کرنے کی بجائے اصحابِ فیل کی یاد قرار دیتے ہیں۔ مولانا فرماتے ہیں: "قد دلت الأمارات الكثيرة على أن رمي الجمار بمنى كان تذكرة لرمي أصحاب الفيل. ولكن الرّوايات الضّعيفة ضربت أسدادا دونه ... وإنما المقصود ههنا أن لا نجد في كلام العرب قبل الإسلام ذكر رمي الجمرات. فالأقرب إنه أمر جديد،ولم يكن إلا بعد واقعة الفيل. وأبقاه الإسلام،لما فيه تذكار نعمة عظيمة وآية بينة من اللّٰه تعالى،فجعل من الحجّ،وخصّ بالتّكبير وذكر اللّٰه تعالى. وذلك هو المقصود منه. "[2] کہ بہت سے قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ منیٰ میں رمی جمرہ واقعۂ فیل ہی کی یاد گار ہے لیکن ضعیف روایات نے اس حقیقت پر پردہ ڈال رکھا ہے ...یہاں صرف یہ دکھلانا ہے کہ کلامِ جاہلیت میں رمی جمرات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نئی چیز ہے اورواقعۂ فیل کے بعد وجود میں آئی ہے۔چونکہ یہ اللہ عزو جل کے ایک بہت بڑے احسان کی یادگار ہے اور اس کی قدرتِ قاہرہ کی ایک عظیم الشان نشانی تھی،اس وجہ سے اسلام نے اس کو باقی رکھا اور حج کے مراسم میں شامل ہو کر اس نے تکبیر و تہلیل کی ایک مخصوص سنّت کی حیثیت حاصل کر لی،اور یہی اس سے مقصود تھا۔ مولانافراہی رحمہ اللہ کی تفسیر پر تبصرہ مولانا فراہی رحمہ اللہ کی اس تفسیر پر تبصرہ درج ذیل نکات کی صورت میں ہے: 1۔ قرآنی الفاظ،مولانا کی اس تفسیر کو قبول کرنے سے اباء کرتے ہیں کیونکہ قرآن نے﴿أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ[3] میں اس فعل کی نسبت اللہ عزو جل کی طرف کی ہے اور جب کسی فعل کی نسبت اللہ کی طرف ہو تو اس سے مراد عذاب ہوتا ہے اور یہ عذاب اسباب کے تحت نہیں ہوتا بلکہ معجزانہ نوعیت کا ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter