Maktaba Wahhabi

680 - 609
تابعین کے مصادرِ تفسیر اس دَور میں ماخذ تفسیر حسبِ ذیل تھے: 1۔ قرآن کریم 2۔ احادیث نبویہ 3۔ اقوالِ صحابہ 4۔ اہل کتاب اور ان کی کتب مقدسہ 5۔ اجتہاد واستنباط[1] کتبِ تفسیر میں تابعین کے اقوال بکثرت مروی ہیں جو ان کے اجتہاد اور غور وفکر پر مبنی ہیں۔گزر چکا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے جو تفسیر منقول ہے وہ جملہ آیاتِ قرآن کو شامل نہیں بلکہ انہی آیات پر مشتمل ہے جن کے معنیٰ ومفہوم میں غموض وخفاء پایا جاتا ہے۔عہدِ رسالت وصحابہ سے جوں جوں دوری ہوتی چلی گئی یہ غموض بڑھتا چلا گیا۔جو تابعین تفسیر قرآن سے دلچسپی رکھتے تھے انہوں نے ذاتی محنت وکوشش سے اس کمی کو دور کرنا چاہا،چنانچہ آہستہ آہستہ انہوں نے تفسیرِ قرآن کو مکمل کر دیا۔تفسیر نویسی کے سلسلہ میں تابعین نے لغتِ عرب،عربوں کے اسالیبِ کلام اور ان واقعات سے بھی مدد لی جو نزولِ قرآن کے وقت در پیش تھے۔[2] جوں جوں اسلامی فتوحات بڑھتی گئیں توں توں مسلمان مدینہ نبویہ سے نکل کر دور دراز علاقوں میں پھیل گئے۔جہاں اسلام کی روشنی پھیلی وہاں مسلمانوں نے بھی بود وباش اختیار کر لی۔مسلمانوں میں ولاۃ،قضاۃ،امراء اور معلّم سبھی قسم کے لوگ تھے۔یہ لوگ جہاں بھی گئے وہاں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کردہ علم وفضل بھی ہمراہ لیتے گئے۔تابعین نے ان کی صحبت سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ان سے علم حاصل کر کے دوسروں کو مستفید کرنے لگے۔چنانچہ ان علاقوں میں علمی مدارس قائم ہوگئے جن کے اساتذہ صحابہ کرام اور تلامذہ تابعین تھے۔ ان میں بعض مدارس نے خصوصی شہرت حاصل کی اور تابعین کی کثیر تعداد نے وہاں مشہور مفسر صحابہ کرام سے کسبِ فیض کیا۔جن میں سے پہلا مکہ مکرمہ،دوسرا مدینہ نبویہ اور تیسرا عراق میں تھا۔یہ تینوں مدارس اس دور کے مشہور تفسیری مرکز شمار ہوتے تھے۔ مفسرین اہل مکہ میں سیدنا ابن عباس کے شاگردوں میں مجاہد بن جبر(104ھ)،عطاء بن ابی رباح(114ھ)،عکرمہ مولیٰ ابن عباس(105ھ)،سعید بن جبیر(95ھ)اور طاؤس بن کیسان(106ھ)رحمہم اللہ شامل ہیں۔ مفسرین اہل مدینہ میں ابی بن کعب،زید بن اسلم(136ھ)،ابو العالیہ رفیع بن مہران(93ھ)اورمحمدبن کعب قرظی(118ھ)رحمہم اللہ معروف ہیں۔ مفسرین اہل عراق میں علقمہ بن قیس(62ھ)،مسروق بن اجدع(63ھ)،قتادہ بن دعامہ سدوسی(118ھ)،حسن بصری(110ھ)،اسود بن یزید(75ھ)،عامر شعبی(100ھ)،مرہ ہمدانی(76ھ)اور عطاء خراسانی(135ھ)رحمہم اللہ ہیں۔
Flag Counter