Maktaba Wahhabi

760 - 609
تفسیر القرآن بالنّظم والمناسبہ مناسبت کے لغوی معنی مقاربت اور مشاکلت کے ہیں۔اصطلاح میں اس سے مراد وہ علم ہے جو قرآن حکیم کی آیات اور سورتوں کی ترتیب میں نظم اور ان میں باہمی ربط وتعلّق کی نوعیت اور حکمت سے بحث کرتا ہے۔[1] اس علم کی ضرورت اس حقیقت کے پیش نظر بڑھ جاتی ہے کہ مصحف کی موجودہ ترتیب نزولی نہیں بلکہ توقیفی ہے اس لئے آیات اور سورتوں میں نظم اور ارتباط کا سمجھنا ضروری ہوجاتا ہے۔قرآن حکیم میں مناسبات اور روابط کبھی جلی ہوتے ہیں کبھی خفی اور کبھی اخفیٰ۔پھر آیات میں باہمی جلی ربط زیادہ ہوتے ہیں اور خفی ربط کے مواقع کم ہوتے ہیں جبکہ سورتوں کے مابین جلی ربط شاذ ہوتا ہے۔[2]سورتوں کے داخلی نظم میں زیادہ تر ایک مرکزی موضوع کو نمایاں حیثیت حاصل ہوتی ہے پھر جزئیات اور تفصیلات اس کے ساتھ مربوط اور متصل ہوتی ہیں۔ جزئیات میں نظم وارتباط کی صورت کبھی یہ ہوتی ہے کہ بات ایک آیت سے مکمل نہیں ہوتی تو دوسری آیت سابقہ مضمون کی تکمیل،تفسیر یا بیان حصر اور استثناء کیلئے آتی ہے یا دوسری آیت تعلیل یا استدراک کیلئے ہوتی ہے اور کبھی نظائر،امثال اور تشبیہ یا تکرار کے قبیل سے ہوتی ہے اسی طرح ارتباط کی نوعیت کبھی مقابلہ اور مفادات کی ہوتی ہے جیسے صفاتِ مومنین کے بعد صفاتِ مشرکین،آیاتِ ترغیب کے بعد آیاتِ ترہیب،آیاتِ کونیہ کے بعد آیاتِ توحید و تنزیہ،بعض جگہ استطراد یا حسن تخلص کی صورت سامنے آتی ہے۔[3]کبھی پہلے عقل سے اپیل کی جاتی ہے اور پھر دل کو متوجّہ کیا جاتا ہے اور احکام کے بیان کے بعد پندو موعظہ کادرس دیا جاتا ہے۔غرض جب کوئی آیت کسی دوسری آیت کے ساتھ ملائی جاتی ہے تو اس میں گونا گوں مناسبتیں ہوتی ہیں اور ہر ترکیب اور ترتیب اپنے اندر نظم کا ایک نیا جلوہ اور حسن و جمال کا نیا رنگ رکھتی ہے۔سورتوں کے تمام مضامین اپنے مرکزی موضوع سے منسلک ہوتے ہیں،فواتح سور اور ان کے خواتم کے مابین بھی ربط ہوتا ہے۔ان تمام وجوہ مناسبات کی معرفت سے قرآن حکیم کے اعجاز،بلاغت،معانی،نظم کلام اور عظمت اسلوب کا صحیح فہم اور شعور حاصل ہوتا ہے۔ قرآن حکیم کا اسلوبِ بیان عربِ قدیم کے نہج سے مطابقت رکھتا ہے۔قدمائے عرب اپنے کلام میں ادبّاء متاخرین کی طرح کا نظم اور تسلسل ملحوظ نہ رکھتے تھے۔[4]وہ صرف ایجاز اور اختصار کو اپنے کلام کی خوبی سمجھتے تھے۔مفرد مضمون اور مستقل کلام کا طریقہ ان کے یہاں عام تھا۔جزئیات کے بیان میں معنی خیز اشاروں سے کام لیتے اور ایماء کو تفصیل اور صراحت پر ترجیح دیتے تھے تاکہ تخیل،مطلوبہ اثر خود حاصل کرلے۔قرآن کریم کا طرز نگارش اسی نہج کا مظہر ہے اور ایسا ہونا طبعی اور فطری تھا،اسی لئے اللہ عزو جل نے تمام پیغمبروں کو ان کی اپنی قوم کی زبان میں پیغمبر بنا کر بھیجا جو عین مصلحت او رحکمت کے مطابق تھا۔
Flag Counter