Maktaba Wahhabi

625 - 609
سے نکل گیا جو بالآخر مولانا ہی کو ملتا۔[1] قصہ یہ تھا کہ مولانافراہی رحمہ اللہ کی حقیقی پھوپھی جو مولوی توجہ حسین کی زوجہ تھی،وفات پائی۔ان کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی،صرف ایک نواسے مرزا صدر الدین تھے،جن کو جانشین بنایا تھا۔مرزا صدر الدین مولانا شبلی رحمہ اللہ کے داماد بھی تھے۔مولوی توجہ حسین نے جائیداد کا بڑا حصہ اپنی زوجہ کے نام کر دیا تھا۔اب اس کل جائیداد کے وارث مولانا فراہی رحمہ اللہ کے والد حاجی عبد الکریم تھے،مگر قابض مرزا صدر الدین تھے۔مولانا شبلی اور فراہی اس معاملہ کو طے کرا دینا چاہتے تھے،مگر حاجی عبد الکریم صاحب راضی نہ ہوتے تھے۔یہاں تک کہ مقدمہ بازی کی نوبت آگئی۔[2] اس سلسلے میں محمد سجاد صاحب کی رائے یہ ہے: ’’میرا خیال ہے کہ جائیداد کے مقدمہ میں ثالثی کا فیصلہ کر کے ابا نے شرعی غلطی کی،اور یہ غلطی انہوں نے جان بوجھ کر کی،اللہ ان کو معاف کرے۔خود ان کو روپے پیسے کی ضرورت تھی نہیں،وہ چاہتے تھے کہ مرزا صدر الدین کو فائدہ پہنچ جائے،مگر وہ بھی نہ ہوا،اس فیصلے کے بعد حاجی سلیم صاحب نے ہادی ولد مولوی توجہ حسین کو کھڑا کر دیا،دعویدار وہ بھی ہو گئے،اس لئے جائیداد مرزا صدر الدین کو پوری نہیں ملی،بلکہ مرزا صدر الدین اور ہادی میں تقسیم ہو گئی۔بدنامی کے ڈر سے کہ لوگ کہیں گے باپ کے حق میں فیصلہ کر دیا،ابا نے باپ کے خلاف اور مرزا صدر الدین کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ابا ہوشیار ہوتے تو اس مقدمے میں ثالث نہ بنتے۔وہ نبی یا پیغمبر نہ تھے،ان سے غلطی ہو سکتی ہے اور انہوں نے اس فیصلے میں غلطی کی۔‘‘[3] 1906ء میں مولانا نے تفسیر سورۂ قیامہ اور الشمس لکھیں۔اسی زمانہ میں اقسام القرآن کے نام سے ایک رسالہ لکھا،جس کا خلاصہ علامہ شبلی رحمہ اللہ نے الندوہ،اپریل 06ء میں شائع کیا۔جنوری 1907ء کی آخری تاریخوں میں مولانا نے کراچی کو خیر آباد کہا۔[4] مولاناسید سلیمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’1904 کے بعد جب مولانا حمید الدین صاحب کراچی یا علی گڑھ سے وطن آتے جاتے تو لکھنؤ میں بھائی کے پاس کچھ دن ٹھہر کر آتے جاتے اور 1905ء سے مولانا خاص طور سے تقاضا کر کے بلواتے او ر اپنے پاس ٹھہراتے۔مقصود یہ تھا کہ ندوہ کے طلباء ان سے فائدہ اٹھائیں،چنانچہ انہی کے اصرار سے کئی بار ندوہ میں آکر رہے۔اور طلبہ کو کبھی فلسفہ جدیدہ اور کبھی قرآن کے سبق پڑھائے۔میں بھی اس زمانہ میں ’ندوہ‘ کا طالب العلم تھا،مولانا کے ان درسوں سے مستفید ہوا۔‘‘[5] لارڈ کرزن(1925ء)کی ترجمانی نومبر 1903ء میں لارڈ کرزن وائسرائے ہند نے خلیج فارس اورسواحل عرب کا سرکاری دورہ کیا۔اس وفد میں مولانا فراہی نے ترجمانی کے فرائض سرانجام دئیے۔
Flag Counter