Maktaba Wahhabi

607 - 609
من هو الذّبیح" کے نام سے الگ شائع کر دیا۔‘‘ [1] مولانافراہی رحمہ اللہ نہ صرف اُردو،عربی اور فارسی میں دسترس رکھتے تھے،بلکہ انگریزی زبان وادب میں بھی انہیں مستند سمجھا جاتا تھا۔مولانا شبلی مرحوم کی فرمائش پر نواب عبادالملک مرحوم(1926ء)نے قرآن پاک کے انگریزی ترجمہ کا جو کام شروع کیا تھا وہ نصف کے قریب انجام پا چکا تھا۔مگر اس میں جابجا نقائص تھے۔نوا ب صاحب نے مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کی موجودگی سے فائدہ اٹھایا او رمدتوں تک یہ شغل جاری رہا کہ مولانا روزانہ صبح کو نواب صاحب کے یہاں جاتے اور نواب صاحب بایں ہمہ ضعف وپیری انگریزی ترجمہ پر مل کر غور کرتے۔اس طرح ان کے ترجمہ کے کئی پاروں پر نظر ثانی ہوئی۔[2] علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ کے بعد مو لانا فراہی رحمہ اللہ نے جس استاد سے سب سے زیادہ اکتسابِ فیض کیا وہ اورینٹل کالج لاہور میں پروفیسر مولانا فیض الحسن سہارنپوری رحمہ اللہ(1304ھ)تھے،جو پورے برصغیر میں عربی زبان و ادب میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ایسے عظیم استاد کی نظر میں مولانا فراہی رحمہ اللہ کی کتنی قدر ومنزلت تھی،اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ مولانا سہارنپوری رحمہ اللہ نے اپنی ’شرح سبعہ معلقہ‘ کا خود تحریر کردہ قلمی نسخہ مولانا فراہی رحمہ اللہ کو بطور یاد گار دیا۔[3] ڈاکٹر شکری فیصل جنہوں نے دلائل النظام پر تبصرہ لکھا ہے،نےموضوع کی اہمیت کے پیش نظر بڑی دقت نظر سے مولانا فراہی رحمہ اللہ کی کتاب ’دلائل النظام‘ کتاب کا مطالعہ کیا۔اس کے علمی وتحقیقی پہلووں پر نظر ڈالنے کے علاوہ کتاب کی نا تمامی کی وجہ سے اس میں جو کمی یا تشنگی رہ گئی،اس کو بھی نہ صرف نوٹ کیا بلکہ اپنے تبصرے میں اس کا اظہار بھی کیا ہے۔ڈاکٹر شکری نے مولانا کی نسبت درج ذیل رائے کا اظہار کیا۔ "العالم المعلم الجليل عبد الحميد الفراهي۔رحمه اللّٰه۔من أبرز وجوه الحركة العلمية والإصلاحية في شبه القارة الهندية،علم من أعلام المسلمين هناك،والذين لا يعرفونه معرفة دقيقة في شرقنا العربي الإسلامي يعرفون۔على الأقل۔كتابه المشهور(إمعان في أقسام القرآن)الذي ألقى فيه أضواء جديدة حقا على ظاهرة القسم في القرآن الكريم." [4] کہ مولانا عبد الحمید فراہی رحمہ اللہ ایک عظیم عالم اور استاد،ان مشہور ترین چہروں میں شامل ہیں جنہوں نے بر صغیر میں علمی اور اصلاحی تحریک برپا کر رکھی ہے۔وہاں کے مسلمانوں کی مشہور شخصیات میں سے ایک ہیں۔جو لوگ ہمارے مشرق وسطیٰ میں ان سے آگاہ نہیں وہ کم از کم ان کی مشہور کتاب(امعان فی اقسام القرآن)کو ضرور جانتے ہیں،جس میں انہوں نے قرآن کریم کی اقسام پر ایک انداز سے روشنی ڈالی ہے۔ مشہور مراکشی عالم شیخ تقی الدین ہلالی رحمہ اللہ نے علامہ فراہی رحمہ اللہ کے بارے میں 17 رمضان 1342ھ میں کچھ تاثرات لکھے تھے،جو بعد
Flag Counter