Maktaba Wahhabi

1079 - 609
مولانا فراہی رحمہ اللہ اور سابقہ کتبِ سماویّہ سے رہنمائی مولانافراہی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر نظام القرآن کے مقدّمہ میں،جس کا عنوان فاتحۂ نظام القرآن ہے،قرآن کی تفسیر بذریعہ آسمانی صحائف کے بارے تفصیلی بحث کی ہے۔ہم ان کی اس بحث کا خلاصہ تین نکات کی صورت میں سامنے رکھ رہے ہیں۔ پہلا نکتہ مولانا فراہی رحمہ اللہ قدیم صحائف کو قرآن کی تفسیر کے ثانوی مصادر میں بیان کرتے ہیں اور اسے تفسیر قرآن کا ظنی ماخذ قرار دیتے ہیں،کیونکہ جمہور علمائے اہل سنت کی طرح ان کا موقف بھی یہی ہے کہ سابقہ کتب میں ان کے ماننے والوں نے لفظی اور معنوی تحریفات کی ہیں۔مولانا فراہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "نلتمس تصحيح الكتب السابقة وتأويلها بعرضها على القرآن ليتضّح الحق على أهل الكتاب." [1] کہ پرانے صحیفوں کی غلطیوں کی تصحیح اور ان کی مشکل آیتوں کی تاویل قرآن کی روشنی میں کرنی چاہئے۔اہل کتاب کے لئے حق معلوم کرنے کی یہی راہ ہے۔ مولانا کے بقول ان تحریفات کے باوجود وحی الٰہی کا ایک بیش بہا خزانہ ان کتب میں موجو دہے اور قرآن کریم کی عبارات سے سابقہ کتب کے جن مضامین کی تائید ہوتی ہو،انہیں قبول کر لینا چاہیے۔اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ سابقہ کتب کے جن مضامین کی تائید قرآن نے کی ہے،ان کو قبول کیا جائے گا لیکن یہ واضح رہے کہ یہ قبولیت قرآن سے ان مضامین کے ثابت ہونے کی وجہ سے ہو گی،نہ کہ سابقہ کتب کی تصدیقات کے بل بوتے پر۔ دوسرا نکتہ جہاں تک قرآن کی تفسیر میں سابقہ صحائف سے مولانا فراہی رحمہ اللہ کے استفادے کاتعلّق ہے تو اس کے بارے مولانا کی رائے یہ ہے کہ قرآن میں سابقہ اقوام کے جو قصّے اشاروں کنایوں یا اجمالی طور پر نقل کیے ہیں،ان کی تفصیلات سابقہ صحائف میں اگر موجود ہوں تو انہیں قبول کیا جائے گا لیکن اگر کسی قصے کے بیان میں قرآن اور سابقہ صحائف کا اختلاف ہو جاتا ہے تو اس صورت میں رجوع قرآن کی طرف ہو گا۔مولانا فرماتے ہیں: "نهتدي لتأويل ما جاء في القرآن من القصص راجعين إلى القرآن عند الاختلاف لكونه محفوظا." [2] كہ قرآن کریم اور کتبِ سابقہ کے مشترک قصوں میں جہاں اختلاف ہو گا وہاں ہم قرآنِ مجید کی طرف رجوع کریں گے کیونکہ قرآن محفوظ ہے۔
Flag Counter