Maktaba Wahhabi

740 - 609
مناع القطان رحمہ اللہ(1999ء)لکھتےہیں: "التفسیر بالرأي هو ما یعتمد فيه المفسّر في بیان المعنی على فهمه الخاص واستنباطه بالرّأي المجرّد"[1] کہ تفسیر بالرّائے وہ ہے جس میں مفسر معنی بیان کرنے میں اپنے ذاتی فہم اور صرف ذاتی رائے سے استنباط پر اعتماد کرتا ہے۔ تفسیر بالرّائے کا حکم علمائے کرام قرآن کریم کی تفسیر بالرّائے کے سلسلے میں شروع سے ہی مختلف الخیال رہے ہیں،اس ضمن میں ان کے نظریات وافکار ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ علماءکی ایک جماعت اس میں تشدّد سے کام لیتی ہے اورتفسیر قرآن کی بالکل اجازت نہیں دیتی،ان کا زوایہ نگاہ یہ ہے کہ کسی شخص کیلئے قرآن کی تفسیر کرنا جائز نہیں۔اگرچہ وہ کسی قدر عالم،ادیب،فقیہ،لغوی اور نحوی کیوں نہ ہو،بخلاف ازیں قرآن کی تفسیر کے سلسلہ میں احادیث نبویہ اور آثار صحابہ وتابعین کی جانب رجوع کرنا چاہیے،جو نزول قرآن کے شاہد عدل تھے۔ اس کے برعکس علماء کی دوسری جماعت یہ نظریہ رکھتی ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر اپنے اجتہاد کے ساتھ کی جاسکتی ہے،اس میں کچھ مضائقہ نہیں۔[2] مانعین کے دلائل: تفسیر بالرائے کے مانعین جن دلائل سے استدلال کرتے ہیں،وہ حسبِ ذیل ہیں: 1۔ مانعین کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرنا گویا اللہ عزو جل کی جانب بغیر علم کے بات منسوب کرنا ہے اور یہ ممنوع ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ رائے سے تفسیر کرنے والے کو اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ اللہ عزو جل کی مراد فلاں آیت سے کیا ہے،بلکہ وہ اپنے ظن کی بناء پر ایک بات کہتا ہے اور ظن کی اساس پر کچھ کہنا گویا بلا دلیل وبرہان خدا پر ایک الزام ہے،قول بالظن کی حرمت کی دلیل یہ آیت ہے: ﴿وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ[3] کہ یہ بھی حرام ہے کہ تم اللہ کے بارے میں وہ بات کہو،جو تم جانتے ہی نہیں۔ نیز فرمایا: ﴿وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ[4] كہ جس بات کا تجھے علم نہیں،وہ بیان نہ کر۔
Flag Counter