Maktaba Wahhabi

860 - 609
اصول پیش کر کے اس اسلوب پر مفصّل روشنی ڈالی ہے۔ان میں سے ایک مثال مولانا کے مؤقف کو واضح کرنے کیلئے حسبِ ذیل ہے،فرماتے ہیں: "منها حذف جانبين من المتقابلين لما دلّ عليه مقابله،كما قال تعالى:﴿فَأَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَأي:أَذَاقَهَا اللّٰهُ طَعْمَ الْجُوعِ وَأَلْبَسَهَا لِبَاسَ الْخَوْفِ. [1] یہاں دونوں مقابل کے ایک ایک پہلو کو ایک دوسرے کی دلیل کے تحت حذف کر دیا گیا ہے۔عام طور پر مفسرین نے اس آیت کریمہ میں اس اسلوب کو استعارہ یا تشبیہ قرار دیا ہے۔[2] جبکہ مولانا فراہی رحمہ اللہ اسے تشبیہ یا استعارہ نہیں بلکہ حذف کی ایک انتہائی اعلیٰ مثال قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح اس کی ایک مثال سورۂ طٰہ میں آیتِ کریمہ:﴿قَالَ يَاهَارُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا()أَلَّا تَتَّبِعَنِ أَفَعَصَيْتَ أَمْرِي[3] ہے،عام مفسرین نے یہاں’لا‘ کو زائد قرار دیا ہے۔[4] جبکہ مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک یہاں بھی حذف ہے،اسے کھولیں تو عبارت یہ بنتی ہے:قَالَ يٰهٰرُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا * أَن تَتَّبِعَنِ وَأَمْرُكَ أَلَّا تَتَّبِعَنِ أَفَعَصَيْتَ أَمْرِي. [5] 3۔نفی قرآنِ کریم کا ایک اہم اسلوب نفی بھی ہے۔مولانا فراہی رحمہ اللہ نے اس اسلوب کی کچھ مثالیں پیش کی ہیں۔جن سے ایک نفي الشّيء بلازمه کی مثال بھی ہے۔[6] اس اسلوب کی تائید میں مولانا نے کلامِ عرب سے امرؤ القیس کےایک شعر کا یہ مصرعہ نقل کیا ہے:"عَلَىٰ لَاحِبٍ لَا يُهْتَدَىٰ بِمَنَارِهِ"[7] کہ اس راستے پر آہ و فغاں نہ کر جس کے میناروں کی روشنی سے رہنمائی نہیں حاصل کی جا سکتی۔ مطلب یہ کہ یہاں کسی مینارۂ نور کا وجود ہی نہیں ہے کہ اس سے روشنی حاصل کرنے کا سوال پیدا ہو۔یہی اسلوب قرآن کریم اس
Flag Counter