Maktaba Wahhabi

767 - 609
نقل کی ہے اور بعض نے اسے تفسیر بالرّائے قرار دیا ہے۔‘‘[1] محمد حسین ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ہم نے تابعین سے مروی تفسیر کو تفسیر بالماثور میں ہی درج کیا ہے،اگرچہ اس میں اختلاف ہے،کیونکہ ہم نے کتب تفسیر بالماثور جیسے ابن جریر وغیرہ کو دیکھا ہے کہ ان میں فقط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کے اقوال پر ہی اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ وہ تابعین سے بھی تفسیر نقل کرتے ہیں۔‘‘[2] ان دونوں حضرات کی اصل،جس سے انہوں نے نقل کیا ہے وہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا رسالہ ہے جس میں وہ لکھتے ہیں: ’’شعبہ بن حجاج وغیرہ فرماتے ہیں کہ اقوال تابعین فروع میں حجت نہیں ہیں تو تفسیر میں کیسے حجت ہوسکتے ہیں یعنی ان کے اقوال کے مخالفین پر حجت نہین ہوسکتے اور یہی صحیح ہے۔ہاں البتہ اگر تمام تابعین کسی شے پر متفق ہوں تو اس کے حجت ہونے میں کوئی شک نہیں ہے،لیکن اگر ان کے باہمی اقوال میں اختلاف پایا جاتا ہو تو وہ نہ تو ان میں سے کسی کا قول کسی پر حجت ہے اور نہ ہی ان کے بعد آنے والوں پر حجت ہے۔اس سلسلے میں قرآن وسنت کی لغت یا عمومی لغتِ عرب یا اقوال صحابہ کو ترجیح دی جائے گی۔‘‘[3] مذکورہ نقول کا موازنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے(طرق التفسیر)کی اصطلاح کو ترک کرکے ایک نئی اصطلاح(التفسیر بالماثور)گھڑ لی او رامام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی اس اصطلاح(طرق التفسیر)کے تحت جو کچھ بیان کیا تھا وہ انہوں نے اپنی اس جدید اصطلاح کے تحت نقل کردیا ہے۔ تفسیر بالماثور کا تفسیر بالرّائے سے تعلّق تفسیر بالرّائے کو تفسیر بالماثور کا جزء قرار دینے والوں کے موقف سے معلوم ہوتا ہے کہ تفسیر بالماثور کی مذکورہ چاروں انواع کے علاوہ تفسیر بالرائے ہے۔اس سے متعدد نتائج سامنے آتے ہیں،جن میں سے ایک یہ ہے کہ تفسیر بالماثور،تفسیر بالرّائے سے زیادہ صحیح ہے اور تفسیر بالماثور پر اعتماد کرنا واجب ہے۔ یہ کلام من حیث الجملہ تو صحیح ہے،مگر اس میں تفسیر بالرّائے کی اصطلاح کی تحدید اور ہر بڑے عالم کیلئے رائے کے مصادر کی معرفت کا بیان نہیں ہے۔جب یہ اُمور واضح ہوجائیں گے تو ان دونوں کا باہمی تعلّق بھی سامنے آجائے گا۔ مذکورہ چاروں انواع کو ماثور کانام دینے سے متعدّد محققین(جو اس اصطلاح پر اعتماد کرتے ہیں)ا س امر سے غافل ہوگئے کہ سلف کے ہاں تفسیر میں اجتہادبھی واقع ہوسکتا ہے۔جب کوئی تفسیر سلف کا اجتہاد ہوگا تو کیا اس کو تفسیربالماثور کہا جائے گا یا تفسیر بالرّائے؟ تفسیر بالرّائے تو عہدِ صحابہ سے ہی چلی آرہی ہے۔صحابہ کرام کےپاس،قرآن و سنت،لغت،اسباب نزول،اسرائیلیات او رجن کے بارے میں قرآن نازل ہوتا تھا ان کے حالات جیسے اپنے مصادر موجود تھے۔[4]
Flag Counter