Maktaba Wahhabi

684 - 609
کہ عطاء یوں تو ثقہ ہیں مگر تفسیری اقوال انہوں نے سعید بن جبیر کی کتاب سے لئے ہیں۔عبد الملک بن مروان 86ھ نے سعید بن جبیر کو قرآن کی تفسیر لکھنے پر مامور کیا تھا۔تو سعید بن جبیر نے یہ تفسیر لکھی۔عطاء بن دینار کو یہ تفسیر کہیں سے مل گئی۔چنانچہ انہوں نے اس تفسیر کو سعید بن جبیر سے ارسال کے ساتھ روایت کر دیا۔ عمرو بن عبید نے بھی سیدنا حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت کرکے ایک تفسیر مرتّب کی تھی۔اور حسن بصری 110ھ میں فوت ہوئے ہیں۔[1] سیدنا ابن جریج رحمہ اللہ 150ھ کے بارے میں بھی معروف ہے کہ انہوں نے تین ضخیم اجزاء پر مشتمل ایک تفسیر لکھی تھی جس کو محمد بن ثور(190ھ)نے ان سے روایت کیا ہے۔[2] جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی زندگی کے ساتھ قرآن کریم کا کس قدر گہرا ربط وتعلّق ہے۔مسلمان قرآن کریم سے شرعی احکام کا استنباط کرنے کے کس قدر دلدادہ تھے۔اور اس کی کس قدر شدید ضرورت بھی تھی تو یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ تفسیر نویسی میں فراء نحوی کو سبقت واوّلیت کا شرف حاصل نہیں ہوا،بلکہ اس سے قبل اس کام کی داغ بیل پڑ چکی تھی۔لیکن یقینی طور پر پہلے مفسر کے طور پر کسی کا تعیّن مشکل ہے۔عصر تدوین سے لے کر تفسیر پر جو کام ہوا تھا،اگر ہم تک پہنچ جاتا توبآسانی اس بات کا تعین ہو سکتا تھا کہ وہ سعادت مند شخص کون ہے جس نے اس انداز پر سب سے پہلے تفسیر قرآن پر مشتمل کتاب لکھی۔ تفسیر بالرّائے مذموم اور عقلی تفسیر ان ادوار كے بعد تفسیر بالماثور کے ساتھ ساتھ تفسیر بالرائے مذموم کی آمیزش شروع ہوگئی۔تفسیر میں بکثرت تصانیف منظر عام پر آنے لگیں،اسناد میں اختصار کیا جانے لگا،روایت بالاسناد کی قید باقی نہ رہی۔جو تفسیری اقوال مفسرین سلف سے منقول تھے ان کی جانب منسوب کیے بغیر ان کو نقل وروایت کیا جانے لگا۔جس کے نتیجے میں تفسیر میں وضع واختراع کا عمل دخل شروع ہوا،صحیح اور ضعیف اقوال میں فرق وامتیاز نہ رہا۔ان کتبِ تفسیر کو پڑھنے والا اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتا کہ ان میں جو کچھ بھی ہے،صحیح ہے۔چنانچہ متاخرین بلا جھجھک اسرائیلیات کو ایک حقیقت سمجھ کر نقل کرنے لگے۔اس سے تفسیر میں موضوعات اور اسرائیلیات کا دروازہ چوپٹ کھل گیا۔آہستہ آہستہ عقل ونقل میں باہم آمیزش واختلاط کا آغاز ہوا۔ان مفسرین میں وہ بھی تھے جن کا مقصدِ وحید مختلف اقوال وآثار کو جمع کرنا تھا۔ان کی حالت یہ تھی کہ جب بھی انہی کسی قول کا پتہ چلتا یا کوئی نئی بات سوجھتی تو فوراً اسے ضبطِ تحریر میں لے آتے۔ان کے بعد آنے والے ان اقوال کو بلا سوچے سمجھے نقل کر دیتے اور مطلقاً اس جانب توجہ نہ دیتے کہ مفسرین صحابہ وتابعین نے اس ضمن میں کیا لکھا ہے؟ اس کا محرک یہ حسنِ ظن تھا کہ ان کتب میں جو کچھ بھی مرقوم ہے،وہ صحیح اور درست ہے۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بعض مفسرین نے﴿عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾کی تفسیر میں دس اقوال نقل کیے ہیں،حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی جو تفسیر منقول ہے وہ
Flag Counter