Maktaba Wahhabi

639 - 609
تلامذہ فراہی رحمہ اللہ مولانا فراہی رحمہ اللہ کے حالاتِ زندگی کو نظر میں رکھا جائے تو ہمیں مولانا سے نسبت رکھنے والوں میں تین قسم کے شاگرد ملتے ہیں۔پہلی قسم ان شاگردوں کی ہے جنہیں مولانا نے اسکولوں اور کالجوں میں ملازمت کے دوران پڑھایا۔ان شاگردوں کا نہ تو تفصیل سے علم ہے اور نہ ان کا کھوج لگانے کی ضرورت ہے،دوسری قسم ان تلامذہ کی ہے جنہوں نے اپنے طور پر مولانا سے قرآن پڑھا،ان کے درسِ قرآن میں شریک ہوئے یا ان کی صحبت میں رہ کر انفرادی طور پر استفادہ کیا۔ان کی تعداد کافی ہے لیکن ہم تک صرف ان کا ذکر پہنچا جو مشہور ہوئے۔تیسری قسم ان تلامذہ کی ہے جن کی تعلیم وتربیت پر قیامِ مدرسۃ الاصلاح کے زمانہ میں مولانا فراہی رحمہ اللہ نے خصوصی توجہ صرف کی یا جنہوں نے خود دلچسپی لے کر مولانا سے کسبِ فیض کیا۔ یہ آخری دَور اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ ایک طرف مولانا فراہی رحمہ اللہ نے انفرادی توجہ صرف کر کے بعض ایسے افراد تیار کرنے کی کوشش کی جو ان کے علم اور فکر کے وارث بن سکیں۔دوسری طرف انہوں نے ایک ایسی درسگاہ کی بنیادیں استوار کیں جو ان کے تعلیمی نظریات کے مطابق اشاعتِ علم کا مرکز بن سکے۔ذیل میں مولانا کے بہت سے شاگردوں میں سے مولانا اختراحسن اصلاحی رحمہ اللہ،مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ،سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ اور مولانا عبد الرحمٰن نگرامی رحمہ اللہ(1926ء)کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اختر احسن اصلاحی رحمہ اللہ [1901۔1958ء] اختر احسن ضلع اعظم گڑھ کے ایک گاؤں ’امیلو چکیا‘ کے ایک زمیندار گھرانے میں 1901ء میں پیدا ہوئے۔والدہ کے انتقال کے بعد بچپن ہی میں ننھیال موضع سلطان پور آگئے۔مدرسۃ الاصلاح کے بانی اوّل مولوی محمد شفیع رشتے میں ان کے ماموں تھے۔ نجی طور پر ابتدائی تعلیم حاصل کر کے اختر احسن صاحب 1910ء میں مدرسۃ الاصلاح کے درجۂ سوم اُردو میں داخل ہوئے۔اس دَور میں مولانافراہی رحمہ اللہ نے ذاتی طور پر مدرسہ کا انتظام وانصرام نہ سنبھالا تھا کیونکہ اس دوران وہ الٰہ آباد میں تدریسی فرائض سر انجام دے رہے تھے،پھر جب 1919ء میں مولانا نے مدرسہ الاصلاح میں مستقل قدم رکھا تو اختر اصلاحی صاحب نے ایک ہونہار طالب علم کی حیثیت سے اُن سے بھر پور استفادہ کیا۔[1] امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ ایک جگہ اختر احسن اصلاحی کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مولانا فراہی کے درس میں اگرچہ مدرسہ کے دوسرے اساتذہ بھی شریک ہوتے لیکن میرے واحد ساتھی مولانا اختر احسن اصلاحی ہی تھے،مولانا کی خاص توجہ بھی ہم ہی دونوں پر رہی۔مولانا اختر احسن اصلاحی اگرچہ بہت کم سخن آدمی تھے،لیکن ذہین اور نہایت نیک مزاج تھے،اس وجہ سے ان کو برابر مولانا کا خاص قرب اوراعتماد حاصل رہا۔انہوں نے حضرت استاذ کے علم کی طرح ان کے عمل کو بھی اپنانےکی کوشش کی،جس کی جھلک ان کی زندگی کے ہر پہلو میں نمایاں ہوتی اور مجھے ان کی اس خصوصیت پر برابر رشک رہا ...مولانا اختر احسن اصلاحی کو استاذ امام کی خدمت کا بھی شرف حاصل ہوا حالانکہ مولانا کسی کو خدمت کا موقع مشکل
Flag Counter