Maktaba Wahhabi

880 - 609
ان معانی و مفاہیم کے تعین کی ذمّہ داری آیتِ کریمہ﴿وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ[1]کے مصداق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عزو جل کی طرف سے دی گئی ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ناصر الدین البانی رحمہ اللہ(1999ء)فرماتے ہیں: ’’اس آیت میں جس ’بیان‘ کاذکر ہوا ہے وہ دراصل سنت مطہرہ ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ عزو جل نے فہم قرآن کیلئے اہلِ عرب کی زبان دانی کو معیار نہیں بنایا،باوجود اس کے کہ وہ انتہائی فصیح اللّسان تھے۔چنانچہ ایسے عجمی جو چند دن عرب میں رہ گئے یا عربی زبان سیکھ لی،ان کے ’تبحّرِ علمی‘ کو وضاحتِ قرآن کیلئے کیونکر قابلِ اعتماد ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ جبکہ عصر حاضر میں اس دور سے زیادہ ’بیانِ قرآن‘ کی ضرورت ہے۔ آیت مذکورہ میں’بیان‘ سےمراد وہ وحی ہے جسے اللہ عزو جل نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر اِلقا ءفرمایا اور اللہ عزو جل کی اس حکمت کی ایک وحی ایسی ہے جسے اللہ عزو جل نے متلوّ اور متعبد بنایا ہے،جس کا ماحصل قرآنِ کریم ہے۔دوسری وہ وحی ہے جو قرآنِ حکیم کی طرح متلوّ تو نہیں،لیکن اس کی حفاظت ضروری ہے،اس لئے کہ اس کے بغیر قرآنِ حکیم کے مکمل فہم کی کوئی صورت ہی نہیں۔لہٰذا وہ وحی جو قرآنِ مجید کی صحیح وضاحت کرتی ہے،قرآن پاک ہی کہلائے گی اور یہی وہ وضاحت ہے جس کا نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت میں صریحاً مکلّف بنایا گیا ہے۔‘‘[2] تفسیر قرآن کا اہم ذریعہ:حدیث! قرآنِ مجید کو صرف لغت سے نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ اگر ایسی بات ہوتی تو صحابہ کرام کو قرآن کی تفسیر کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی کی ذرہ برابر ضرورت نہ رہتی۔اور امر واقعہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمیشہ قرآن کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی لیتے تھے اور جب کبھی حضراتِ صحابہ نےاپنے طور پر صرف لغت سے الفاظِ قرآن کا مفہوم متعین کرنا چاہا تو ایسی ہی مشکل کا سامنا کرنا پڑا جیسے آج کے’ اہل قرآن ‘ مفسرین کو کرنا پڑ رہا ہے۔اس کی چند ایک امثلہ درج ذیل ہیں: 8۔ صحیح بخاری میں سیدنا عدی بن حاتم(66ھ)کا معروف قصّہ موجود ہے کہ جب رمضان المبارک میں سحری کا حکم نازل ہوا کہ اس وقت تک سحری میں کھا پی سکتے ہو جب تک سفید اور سیاہ دھاریاں الگ الگ ظاہر نہ ہو جائیں۔یہاں قرآنِ کریم کی مراد طلوعِ فجر کے وقت مشرق کی جانب آسمان پر نظر آنے والی سفید روشنی اور سیاہ اندھیرے کی دھاریاں ہیں جن کا الگ الگ نظر آنا طلوعِ فجر کی علامت ہے اور اسی کے ساتھ سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے،مگر عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے یہ کیا کہ دھاگے کی سفید اور سیاہ ڈوریاں اپنے تکیہ کے نیچے رکھ لیں اور سحری کے وقت انہیں دیکھ کر کھاتے پیتے رہے اور جب وہ الگ الگ دکھائی دینے لگیں تو کھانا پینا چھوڑدیتے۔ایک روز رسولِ ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا تذکرہ ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا:
Flag Counter