Maktaba Wahhabi

1024 - 609
سطورِ بالا سے علم ہوتا ہے کہ مولانا فراہی رحمہ اللہ تحقیق روایت میں سند کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ یہ پہلو بھی لازماً دیکھتے کہ وہ قرآن کے اشارات کے موافق ہے یا مخالف۔وہ راوی کے متعلق یہ تحقیق کرتے کہ وہ خود شریکِ واقعہ تھا یا محض شنید پر مبنی معلومات دے رہا ہے۔وہ درایت کے اصولوں کو استعمال کرتے ہوئے دیکھتے کہ روایت معروفات کے خلاف تو نہیں اور اس سے قرآن کے کسی اُصول پر زد تو نہیں پڑتی۔ نقلِ حدیث کے طریقے مولانا فراہی رحمہ اللہ نے جن طریقوں سے احادیث کی روایت کی ہے ان میں سے کچھ علماء کے ہاں غیر مانوس ہیں۔لیکن اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مولانا کی اکثر کتابیں ان کی زندگی میں مکمل نہ ہو سکیں،لہٰذا وہ مسودات یا اقتباسات کی صورت میں مختلف اوراق پر موجود تھیں،گویا ابھی مولانا کو ان پر مکمل طور پر کام کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔لیکن بعد میں یہ ان کی کتابوں کو ایڈٹ کرنے والوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان کمیوں کو دور کرتے۔ذیل میں بعض ایسے مواقع کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے: 1۔ اکثر احادیث بغیر حوالوں کے ہیں۔حدیث کو ذکر کرنے کیلئے بالعموم اس طرح کی عباتیں ہیں: في الحديث،قال النّبي صلی اللّٰه علیہ وسلم،جاء في الحديث،رُوي في الخبر،جاء في صحيح الخبر 2۔ کئی مقامات پر اس طرح احادیث درج کی گئی ہیں کہ ان سے پہلے کوئی ایسا لفظ نہیں جو ان کے حدیث ہونے کا پتہ دے۔مثلاً ((حُفّتِ الْجَنَّةُ بِالمكَارِهِ))،((تُسَلْسَلُ الشَّيَاطِينُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ))[1]،((اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ))[2]،((سَبَقَتْ رَحْمَتِي عَلَىٰ غَضَبِي))[3](میرے سامنے عجمیوں کی طرح مت کھڑے ہو۔)[4] وغیرہ۔احتیاط کا تقاضا یہ تھا کہ ان سے پہلے یا بعد میں ایسے الفاظ بھی لائے جاتے جو ان کے حدیث ہونے پر دلالت کرتے۔ 3۔ بعض مقامات پر مولانا نے حدیث کے الفاظ نقل کرنے کی بجائے ان کا مفہوم بیان کر دیا ہے۔مثلاً ایک جگہ روایت یوں درج کی ہے قال عليه السلام في أمر أهل الكتاب:لا تصدقوهم ولا تكذبوهم پھر اگلے ہی صفحے پر اسی روایت کو ترتیب الٹ کر یوں درج کیا:لا تكذبوهم ولا تصدقوهم. [5] ايك جگہ روایت کی ہے:قال النّبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم:إني تارك فيكم الثّقلين:كتاب اللّٰه وسنتي،وقال:عضّوا عليه بالنواجذ[6] اس طرح عليه میں ضمیر مذکر کی ہونے کے
Flag Counter