Maktaba Wahhabi

910 - 609
پھر وہ اہل مکہ کو لے کر پہاڑوں پر چلے گئے۔چنانچہ اللہ عزو جل نے ان پر سمندر سے پرندے بھیجے،جن کے پنجوں اور چونچوں میں پتھر تھے وہ پتھر دال اورچنے کے دانے کے برابر تھے وہ جس پر بھی پتھر پھینکتے تھے وہ وہیں نیست و نابود ہوجاتا تھا۔[1] 5۔ فخر الدين رازی رحمہ اللہ اس واقعہ کو تفصیل کےساتھ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’دوسرا مسئلہ:مقاتل(150ھ)فرماتے ہیں کہ ہر پرندے نے تین تین پتھر اٹھائے ہوئے تھے۔ایک ایک چونچ میں اور دو دو پنجوں میں۔ان میں سے ہرپتھر ایک آدمی کو قتل کرتا تھا۔ہر پتھر پر اس کے صاحب کا نام لکھا ہوا تھا۔جب وہ ایک جانب سے لگتا تو سوراخ کرتے ہوئے دوسری جانب سے نکل جاتا۔اگر سر سے لگتا تو دبر سے نکل جاتا۔عکرمۃ رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ جس کو پتھر لگتا اس کے جسم پر چیچک کا دانہ نکل آتا تھا۔‘‘[2] فخر الدين رازی رحمہ اللہ نے بھی عبدالمطلب کا وہی جواب نقل کیا ہے جو انہوں نے ابرہہ کو دیا تھا:أنا ربّ الإبل ولبيت ربّ سيمنعك عنه کہ میں ان اونٹوں کا مالک ہوں،اس گھر کا بھی ایک مالک ہے جو تجھے اس سے دور رکھے گا۔[3] 6۔ زمخشری رحمہ اللہ اس واقعہ کی تفصیل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’انہوں نے وہی تفصیل نقل کی ہے جو مذکورہ بالا تفاسیر میں گذر چکی ہے کہ اہل مکہ نےمقابلہ کرنے کی بجائے پہاڑوں میں پناہ لینے میں ہی عافیت سمجھی اور لشکر ابرہہ پر سمندری پرندوں نے سنگ باری کی اور انہیں ہلاک کردیا۔[4] مذکورہ بالا تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ جمہور مفسرین کے نزدیک لشکر ابرہہ پر سنگ باری اہل مکہ نے نہیں بلکہ پرندوں نے کی تھی۔جن کو اللہ عزو جل نے سمندر کی طرف سے لشکر پر بطور عذاب بنا کربھیجا تھا۔اس سلسلے میں مولانا فراہی رحمہ اللہ صاحب نے جو موقف اختیار کیا ہے کہ سنگ باری اہل مکہ نے کی تھی اور پرندے ان کی لاشوں کو کھانے کے لئے آئے تھے وہ ان کی اپنی انفرادیت ہے دیگر مفسرین سے ایسی کوئی رائے ثابت نہیں ہے۔ 4۔﴿فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا﴾کی تفسیر جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیتِ مبارکہ﴿فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا﴾کا ترجمہ ’’تمہارے دل راہِ راست سے ہٹ گئے ہیں۔‘‘ ہے۔کیونکہ واقعہ کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں اُمہات المؤمنین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ناراض ہو کر گناہ کا ارتکاب کیا تھا۔جس پر اللہ عزو جل انہیں یہ تنبیہ کر رہے ہیں کہ تمہارے دل راہِ راست سے ہٹ گئے تھے۔لہٰذا تم اللہ عزو جل سے توبہ کرو۔ جبکہ مولانا فراہی رحمہ اللہ نے یہاں بھی جمہور مفسرین کے خلاف تفسیر کی ہے۔وہ اس آیت مبارکہ کا مفہوم:مالت قلوبکما إلى اللّٰه ورسوله بیان کرتے ہیں۔وہ اس آیت مبارکہ کا ترجمہ کرتے ہیں:’’تم دونوں اللہ عزو جل کی طرف رجوع کرو تو یہ اَقرب ہے کیونکہ
Flag Counter