Maktaba Wahhabi

839 - 609
داخل ہوگیا۔فرعون کے پیچھے سارا لشکر سمندر میں داخل ہوگیا۔جب وہ سارے کے سارے سمندر میں داخل ہوگئے تو اللہ نے سمندر کو حکم دیا کہ دوبارہ اپنی اصل ہیئت پر آجائے۔جس سے سارے کے سارے غرق ہوگئے اور یہ واقعہ دس محرم کو پیش آیا تھا جس کے شکر انے کے طور پر موسی علیہ السلام نے دس محرم کا روزہ رکھا۔[1] 18۔امام ابن عطیہ رحمہ اللہ واقعہ غرق فرعون کے بارے میں لکھتے ہیں: ﴿وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ﴾جب موسی علیہ السلام اپنی قوم کو لے کر بحر قلزم کے ساحل پر پہنچے تو اللہ عزو جل نے وحی کے ذریعہ حکم دیا کہ اپنی لاٹھی کو سمندر پرمارو۔جس سے سمندر میں بارہ رستے بن گئے او رہر ہر قبیلہ ایک ایک رستے میں داخل ہوگیا۔سمندر میں داخل ہونے کے بعد انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ ہمارے دوسرے ساتھی تو غرق ہوگئے ہیں۔چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ عزو جل سے ان کے برے اخلاق کے بارے میں دعا کی کہ میری مدد فرما،اللہ نے کہا کہ اپنے عصا کو گھماؤ۔حضرت موسی علیہ السلام نے عصا کو گھمایا تو ان رستوں کے درمیان روشن دان بن گئے۔جن سے وہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے سمندر سے پارنکل گئے۔ ادھر فرعون اپنے لشکر کو لےکر ساحل سمندر پر پہنچا اور اس نے سمندر میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تو اس کے گھوڑے نے انکار کردیا،چنانچہ جبرئیل علیہ السلام ایک گھوڑی پرسوار ہوکر آئے اور فرعون کا گھوڑا بھی اس کے پیچھے سمندر میں کود پڑا۔آل فرعون سمندر میں داخل ہوگئی۔پیچھے سے میکائیل علیہ السلام ان کو جلدی جلدی داخل ہونے کی ترغیب دے رہے تھے۔جب وہ سارے سمندر میں داخل ہوگئے تو ان پر سمندر منطبق ہوگیا اور وہ سب غرق کردیئے گئے۔[2] مذکورہ بالا تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ عزو جل نے موسی علیہ السلام او ران کی قوم کو فرعون سے نجات دینے کے لئے سمندر کے پانی کو ساکن کردیا تھا جو بڑے بڑے پہاڑوں کی مانند اپنی اپنی جگہ پرکھڑا ہوگیا اور اس پانی کے پہاڑوں کے درمیان رستے بنا دیئے گئے جن میں سے وہ گزر رہے تھے۔پھر بنی اسرائیل کے مطالبہ پر ان پہاڑی دیواروں کے درمیان روشن دان بھی قائم کردیئے گئے جن سے وہ ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے اور گفتگو سن سکتے تھے۔جب فرعون اور اس کا لشکر ان رستوں میں داخل ہوا تو اللہ عزو جل نے پانی کودوبارہ جاری کردیا او رپورے لشکر کو اس میں غرق کردیا گیا۔لیکن فراہی صاحب نے جو قصہ بیان کیا ہے اور اس میں ہواؤں کے کردار کے حوالے سے گفتگو کی ہے وہ جمہور مفسرین میں سے کسی نے بھی نہیں کی۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ فراہی صاحب اپنے اس مؤقف میں بھی جمہور مفسرین سے منفرد ہیں۔ قوم لوط کی ہلاکت غبار انگیز ہوا کے ذریعہ سے ہوئی قوم لوط پر عذاب کے حوالے سے مولانا فراہی رحمہ اللہ کا مؤقف ہے کہ ان کی تباہی بھی ہوا کے ذریعے سے ہی ہوئی ہے۔ان پر تیز آندھی چلی جس سے ان کے مکانات کی چھتیں زمین کے برابر ہوگئیں او راوپر سے کنکریاں اور ریت نے ان کوڈھانپ لیا،وہ اپنی کتاب مجموعہ تفاسیر میں رقم طراز ہیں:
Flag Counter