Maktaba Wahhabi

646 - 609
’’ان کا امتیازی مضمون قرآنِ مجید اورعلمِ کلام ہے،میں نے معاصر علماء میں کسی شخص کا مطالعہ،قرآنِ مجید اورعلومِ قرآن کا اتنا وسیع اور گہرا نہیں پایا اور یہ غالباً مولانا حمید الدین فراہی کی طویل صحبت کا نتیجہ تھا۔‘‘[1] عبد الرحمٰن نگرامیرحمہ اللہ [1899۔1926ء] مولانا شبلی رحمہ اللہ اور فراہی رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سے ایک نامور شخصیت عبد الرحمن نگرامی ندوی کی ہے،ان دونوں حضرات سے انہوں نے قرآنِ مجید پڑھا۔مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کی صحبت وتربیت بھی انہیں حاصل رہی۔جید علماء سے استفادہ نے ان کے اندر قرآنی ادبیات کا ایک خاص ذوق پیدا کر دیا تھا۔اپنی ذہانت اور وسعتِ مطالعہ کے سبب وہ نہایت مقبول اُستاد تھے۔ان کے ایک شاگرد مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی ان کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’گہری علمیت،بے مثال ذہانت،غیر معمولی وسعتِ نظر اور بلندئ اخلاق کا عجیب وغریب مرقع تھے۔مولانا شبلی کے فیضان اور مولانا آزاد کی تربیت نے انہیں علم وخطابت کی جامعیت بخشی تھی جو مشکل سے ہی کہیں اور نظر آتی ہے۔نگاہ ایسی کیمیا تھی کہ جس پر پڑ گئی،کندن بن گیا۔ان کی بدولت طلباء کی علمی وذہنی سطح بہت بلند ہو گئی تھی۔‘‘[2] اللہ تعالیٰ نے انہیں فطری ذہانت اور بہت سی دوسری خوبیوں سے سرفراز فرمایا تھا۔سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’دار العلوم ندوہ نےاپنے تیس برس کی مدت میں جتنے کارآمد اور علم دین کے خادم پیدا کیے،یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ عبد الرحمٰن ان سب میں بہتر تھا،اللہ عزو جل ٰ نے اس کی ذات میں علم وعمل کی ساری خوبیاں جمع کر دی تھیں۔‘‘ [3] عبد الرحمٰن نگرامی رحمہ اللہ نے مولانا فراہی رحمہ اللہ سے کسبِ فیض کیا،اس حوالے سے سید صاحب لکھتے ہیں: ’’چار برس تک مدرسہ سرائے میر(الاصلاح)میں رہ کر درس وتدریس کافرض انجام دیا۔اسی زمانہ میں حضرت مولانا حمید الدین فراہی کے زیر سایہ قرآن پاک کا فیض حاصل کیا۔‘‘[4] مولانا عبد الماجد دریا آبادی رحمہ اللہ نے مولانا نگرامی رحمہ اللہ کی جواں مرگ پر جن الفاظ میں اظہارِ افسوس کیا،ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں مولانا نگرامی کاکیا مقام تھا۔لکھتے ہیں: ’’ایک چراغ جلا لیکن قبل اس کے اس کا اُجالا پوری طرح پھیلے،بجھ کیا۔ایک آفتاب چمکا،لیکن پیشتر اس کے کہ اس کی شعاعیں پورا نور پھیلائیں،غروب ہوگیا۔ایک پھول کھلا مگر معاً مرجھا گیا۔سبزہ لہلہایا مگر فوراً خشک ہو کر زمین کے برابر ہوگیا۔حق کی پکار بلند ہوئی لیکن معاً فضائے لا متناہی میں گم ہو گئی۔‘‘[5] مولانا اصلاحی رحمہ اللہ اپنے جلیل القدر استاد کے بارے میں رقمطراز ہیں: ’’مولانا نگرامی بے حد ذہین اور ہمہ صفت استاد تھے۔وہ بہت زبردست ادیب،شعلہ بیان خطیب اور ایک بے مثال شاعر تھے۔
Flag Counter