Maktaba Wahhabi

803 - 609
متاخرين میں محمد عبد العظيم زرقانی رحمہ اللہ نے العلوم التي یحتاجها المفسّر کے عنوان سے پانچ علوم کا ذکر کیا ہے،لیکن ان علوم میں بھی نظم قرآن کا علم شامل نہیں کیا۔[1] اسی طرح ڈاکٹر محمد حسین ذہبی رحمہ اللہ نے مفسر کیلئے ضروری،علوم کے عنوان کے تحت قریباً 15 علوم کی فہرست تیا ر کی ہے لیکن ان میں علم نظم قرآن موجود نہیں ہے۔[2] الحاصل علمائے تفسیر نے علم نظم قرآن کو اصول تفسیر تو کجا تفسیر کیلئے ضروری علوم میں بھی شمار نہیں کیا،اب واضح ہے کہ اس کے ذریعے تفسیر ’تفسیر بالرائے‘ ہو گی اور تفسیر بالرائے،جیسا کہ ہم پیچھے بیان کر چکے ہیں کہ اگر شرائط وضوابط کے مطابق ہو(مثلاً تفسیر بالماثور کے موافق ہو وغیرہ)تو محمود وگرنہ مذموم ہوتی ہے۔ "فمن فسر القرآن برأيه أي باجتهاده ملتزما الوقوف عند هذه ا لمآخذ معتمدا عليها فيما يرى من معاني كتاب اللّٰه كان تفسيره سائغا جائزا خليقا بأن يسمى التفسير الجائز أو التفسير المحمود ومن حاد عن هذه الأصول وفسّر القرآن غير معتمد عليها كان تفسيره ساقطا مرذولا خليقا بأن يسمى التفسير غير الجائز أو التفسير المذموم. فالتفسير بالرأي الجائز يجب أن يلاحظ فيه الاعتماد على ما نقل عن الرسول صلی اللّٰه علیہ وسلم وأصحابه مما ينير السبيل للمفسر برأيه ..... " [3] کہ جو شخص قرآن کی تفسیر اپنے رائے سے کرتا ہے لیکن اس طرح کہ ان چاروں ماخذوں(تفسیر بالما ثور کے اصولوں)کو ساتھ رکھتا ہے اور ان سے قرآنی معانی کا استنباط کرتا ہے،اس کی تفسیر جائز ہوگی اور اس قابل ہوگی کہ اس کا نام تفسیر بالرائے جائز و محمود رکھا جائے اور جو شخص ان اصولوں سے انحراف کر کے تفسیر کے،اس کی تفسیر ساقط و مرد ود ہوگی اور اس کا نام تفسیر بالرائے مذموم وغیر جائز رکھنا ہی صحیح ہے۔ چنانچہ تفسیر بالرائے جائز میں مفسر کیلئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے منقول آثار پر اعتماد کرنا واجب ہے،یہ چیزیں تفسیر با لرائے کرنے والے کیلئے راہ کو روشن کرتی ہیں۔ اس کے برعکس مولانا فراہی رحمہ اللہ نے تفسیر قرآن کے اصولوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے:1۔بنیادی اصول،2۔ترجیح کے اصول،3۔غلط اصول پھر بنیادی اُصول کے تحت چار اصول پیش کئے ہیں: (۱)۔نظم کلام اور سیاق و سباق کا لحاظ، (۲)۔نظائر قرآن کی روشنی میں مفہوم کا تعین، (۳)۔كلام میں مخاطب کا صحیح تعین،اور (۴)۔الفاظ کے شاذ معانی کا ترک
Flag Counter