Maktaba Wahhabi

833 - 609
پر کھڑے کے کھڑے رہ جائیں۔ دوسری جگہ فرمایا ہے: ﴿وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ يُرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرَاتٍ وَلِيُذِيقَكُمْ مِنْ رَحْمَتِهِ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِأَمْرِهِ[1] کہ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ بھیجتا ہے ہواؤں کو بشارت بناکر اور تاکہ تمہیں اپنی رحمت سے شاد کام کرے اور تاکہ کشتیاں اس کے حکم سے چلیں۔ اس تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ قوم نوح پرتند اور چکردار ہوا کا طوفان آیا جس سے سخت بارش ہوئی،پاس کے سمندروں کا پانی ابل پڑااو رہر طرف سے موجیں اچھلنے لگیں۔اس طوفان کے اندر نوح علیہ السلام کا سفینہ کوہ جودی پر جاکے ٹکا۔ جمہور مفسرین کامؤقف جمہور مفسرین کے نزدیک قوم نوح پر سیلاب اور طوفان کا عذاب آیا اور یہ پانی تنور سے پھوٹنے لگا۔اب تنور کی وضاحت میں مفسرین سے مختلف اقوال ثابت ہیں کہ تنور سے مراد حقیقی روٹیاں پکانے والا تنور ہے یا اس سے سطح زمین مراد ہے یا اس سے بلند مقامات مراد ہیں یااس سے صبح کا پھوٹنا مراد ہے۔بہرحال جمہور مفسرین میں سے کسی نے بھی وہ تفسیر بیان نہیں کی جو مولانا فراہی رحمہ اللہ نے بیان کی ہے اور اس میں ہواؤں کے کردار کے بارے میں بحث کی ہے۔وہ اپنی اس تفسیر میں منفرد ہیں او ریہ ان کے تفردات میں سے ہے۔ 11۔امام طبری رحمہ اللہ قوم نوح پر نزول عذاب کے بارے میں لکھتے ہیں: "عن ابن عباس أنه قال في قوله﴿وَفَارَ التَّنُّورُقال:(التنور)وجه الأرض قال:قيله له:إذا رأيت الماء على وجه الأرض فاركب أنت ومن معك" کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے،فرماتے ہیں کہ اللہ عزو جل کے اس قول﴿وَفَارَ التَّنُّورُ﴾میں(التنور)سے مراد سطح زمین ہے۔یعنی نوح علیہ السلام کو کہا گیا کہ آپ سطح زمین پر پانی دیکھیں تو آپ اور آ پ کے ساتھ کشتی میں سوار ہوجائیں۔[2] "عن علی قوله﴿وَفَارَ التَّنُّورُقال هو تنویر الصبح"[3] کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ(التنور)سے مراد صبح کا طلوع ہونا ہے یعنی جب صبح طلوع ہوجائے تو آپ کشتی میں سوار ہوجائیں۔ قتادہ اللہ عزو جل کے اس قول﴿وَفَارَ التَّنُّورُ﴾کے بارے میں فرماتے ہیں: "کنا نحدث أنه أعلی الأرض و أشرفها،وکان علماً بین نوح و بین ربه" کہ ہم اسے زمین کے بلند مقامات(ٹیلے وغیرہ)قرار دیتے تھے او ریہ سیدنا نوح اور اللہ عزو جل کے درمیان ایک علامت تھی یعنی
Flag Counter