Maktaba Wahhabi

715 - 609
سے ہوتا ہے یعنی فہم کا ا س میں بالکل دخل نہیں ہوتا جیسے﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ﴾سے مراد نمرود ہے اور﴿الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ﴾سے مراد نعیم بن مسعود اشجعی اور﴿إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ﴾سےمراد ابوبکر صدیق ہیں۔‘‘[1] علامہ سیوطی(911ھ)نے اتقان کی سترویں نوع میں تعیینِ مبہمات کی بحث کی ہے اور اس میں اسی قسم کی امثلہ ذکر کی ہیں اور تصریح کی ہے کہ اس کا ذریعہ محض نقل ہے اور رائے کا اس میں بالکل دخل نہیں ہے۔ 3۔شانِ نزول اسبابِ نزول کی اہمیت کے پیش نظر اس کا ذکر آگے کچھ صفحات کے بعد مستقل طور پر موجود ہے۔ 4۔گذشتہ امتوں کے حالات اور آئندہ فتنوں کی خبر اس حوالے سے مولانا ثنا ء اللہ امرتسری رحمہ اللہ(1948ء)قول صحابی کو مرفوع کہتے ہیں۔مگر ایک شرط کے ساتھ کہ وہ صحابی اسرائیلیات وغیرہ سے نہ لیتا ہو اگر ایسا ہو گا تو اس کا گذشتہ یا آئندہ واقع کی خبر دینا حکم میں مرفوع کے نہیں ہو گا بلکہ موقوف ہو گا۔[2] اس پر رسالہ اتباع السلف میں یہ دلیل دی کہ یہ محدثین کا اصول ہے۔چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ(852ھ)لکھتے ہیں: ’’جو صحابی اسرائیلی روایات نہ لیتا ہو وہ اگر کوئی ایسی روایت بیان کرے جس میں اجتہاد و قیاس کودخل نہ ہو اور کسی لغت کی تشریح نہ ہو(کیونکہ لغت کی تشریح بھی مرفوع کے حکم میں نہیں)جیسے ابتدائے خلقت اور انبیاء کے حالات کی خبر دینا یا آئندہ کے فتنوں اور فسادوں اور قیامت کے احوال کی خبردینا تو ایسی حدیث مرفوع(نبوی)کے حکم میں ہو گی۔‘‘[3] محدث روپڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’گذشتہ یا آئندہ کے واقعات کی خبریں اور تعین مصداق کی بعض صورتیں جن میں فہم کا دخل ہو سکتا ہے یا اسرائیلیات کی قسم سے ہونے کا احتمال ہے اور ناقل بھی اسرائیلیات سے لیتا ہے۔ان سب میں ہم مولوی ثنا ء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کے ساتھ متفق ہیں یعنی جس طرح وہ موقوف یا مرفوع کہتے ہیں ہم بھی موقوف یا مرفوع کہتے ہیں۔‘‘[4] 5۔ناسخ و منسوخ اس بارے میں عبد اللہ محدّث روپڑی رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ اس میں فہم و رائے کا دخل نہیں بلکہ محض نقل کی قسم ہے۔[5] نواب صدیق الحسن خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’یعنی تفسیر کی قسم سے(جس کی تعلیم کا نبی کو حکم تھا)وہ یہی ہے جس میں سننے(سماع)کے بغیر کلام کرنا جائز نہیں۔جیسے شان
Flag Counter