Maktaba Wahhabi

1039 - 609
قدیم آسمانی صحائف مولانا کی تحریروں پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ سابقہ الہامی کتب پر ان کی گہری نظر ہے۔عہدِ نامہ قدیم و جدید کا دقّتِ نظر سے مطالعہ اور اپنی تفسیر میں خاص طور سے انبیاء و رسل علیہم السلام کے واقعات کی توضیح میں ان سے استفادہ مولانا فراہی رحمہ اللہ کا خاص امتیاز ہے۔الإکلیل في شرح الإنجیل کے نام سے مولانا نے ناتمام مسودہ چھوڑ اہے۔اس میں انجیل و قرآن کے تقابل پر بڑی بحث ہے۔الرّأي الصّحیح في من هو الذبيح میں یہودو نصاریٰ کی الہامی تحریف شدہ کتابوں ہی سے ان کے عقائد کا ابطال کیا ہے اور قطعی دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ ذبیح سیدنا اسحاق نہیں بلکہ سیدنا اسماعیل تھے۔مولانا فراہی رحمہ اللہ قرآنِ کریم اور قدیم آسمانی صحائف کے تعلّق اور ان کے بارے میں اپنا موقف واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "كما أن الشّمس إذا طلعت لا يهتدي السّالك بالنّجوم الشّوابك،فهكذا بعد نور القرآن أعرض المسلمون عن الكتب السّابقة المختلطة صدقًا وكذبًا كل الإعراض. ولكن لمّا أنّ القرآن أحد الکتب المنزّلة،ونبيّنا واحد من الأنبياء،ونحن المسلمين مع كثرة الرّسل أمّة واحدة لا بدّ لنا أن ننظر فيما سبق لِنعرِفَ قدر القرآن الحكيم،ونشكُرَ فضل اللّٰه الجسيم ويظهَرَ لنا تأويل تلميحات القرآن التي خَفِيَت عن الخلف من المفسّرين،فلم يهتدوا لوجه الكلام في غير موضع ويَتبيّنَ لنا سبيلُ إفحام أهل الكتاب. وأما أهل التّفسير فمع أنّهم أكثروا من الإسرائيليات تركوا الكتب المقدّسة إلا قليلًا من العلماء الّذين أظهروا الحق على أهل الكتاب وأقاموا عليهم الحجّة كابن تيمية رحمه اللّٰه،فنعمّا فعلوا فكأنّي على إثرهم." [1] کہ جس طرح سورج کے طلوع ہو جانے کے بعد تاروں کی روشنی کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی،اسی طرح قرآن کے نازل ہوجانے کے بعد مسلمان ان پچھلی آسمانی کتابوں سے بالکل بے نیاز ہو گئے ہیں جن میں جھوٹی اور سچی ہر قسم کی باتیں ملا دی گئی ہیں۔تاہم قرآنِ مجید آسمانی صحیفوں میں سے ہی ایک ہے اور ہمارے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم جماعتِ انبیاء علیہم السلام ہی کے ایک فرد ہیں اور تمام مسلمان آدم سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک،انبیاء کی کثرت کے باوجود،ایک ہی امت ہیں۔اس وجہ سے ہمارے لیے پچھلے صحیفوں کی تعلیمات کو جاننا ضروری ہے۔اس سے ہمیں گوناگوں فوائد حاصل ہوں گے۔اس سے دوسری کتابوں کے مقابل میں قرآن عظیم کی قدر وعظمت معلوم ہوگی اور ہم اللہ عزو جل کی اس عظیم نعمت پر اس کا شکر ادا کرنے کی توفیق پائیں گے۔اس سے قرآنِ مجید کے وہ اشارات بھی واضح ہوں گے جو ہمارے دَور آخر کے مفسرین سے مخفی رہ گئے اور اس کے سبب سے وہ ایک سے زیادہ مقامات میں اصل حقیقت تک پہنچنے سے قاصر رہ گئے۔نیز اس سے اہلِ کتاب پر حجت قائم کرنے کے لئے دلائل ہاتھ آئیں گے جو بجائے خود ایک بہت بڑا فائدہ ہے۔اہل تفسیر نے اسرائیلی روایات کو بہت زیادہ نقل کرنے کے باوجود اصل ماخذ یعنی کتبِ مقدسہ کی طرف رجوع نہ کیا اور تفسیر کی کتابوں میں منقول روایات پر اعتماد کر لیا البتہ چند علمائے حق اس سے مستثنیٰ ہیں جنہوں نے اہلِ کتاب کے مقابلہ میں حق کی حمایت کی اور ان کے خلاف حجّت قائم کی جیسے ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان بزرگوں نے واقعی حق ادا کر دیا ہے۔میں بھی انہی کے نقشِ قدم کا پیرو ہوں۔
Flag Counter