Maktaba Wahhabi

1066 - 609
من جنس الاستدلال على الحكم بالآية لا من جنس النّقل لما وقع." [1] کہ مفسرین کرام جو نزولِ آیت کے بارے میں متعدد اسبابِ نزول ذکر کرتے ہیں،بعض اوقات تو وہ اسی قبیل سے ہوتے ہیں اور صحابہ وتابعین کی یہ معروف عادت ہے کہ جب وہ "نزلت هذه الآية في كذا"کہیں،تو اس سے ان کی یہ مراد ہوتی ہے کہ وہ آیت اس حکم کو شامل ہے نہ کہ فلاں واقعہ اس آیت کا سببِ نزول ہے۔محدثین کی ایک جماعت اسے مرفوع احادیث میں شامل کرتے ہیں۔جبکہ امام احمد،مسلم ودیگر محدثین اسے حدیثِ مسند شمار نہیں کرتے،بلکہ ان کے نزدیک صحابہ کرام کا یہ کہنا آیت سے کسی حکم کے بارے میں استدلال کرنے کی قبیل سے ہوتا ہے نہ کہ واقعہ کی خبر نقل کرنے کی جنس سے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ اور اسبابِ نزول مولانا فراہی رحمہ اللہ اس بارے میں جمہور علمائے تفسیر سے متفق نہیں،بلکہ ان سے الگ رائے رکھتے ہیں۔شانِ نزول کی جو روایات ملتی ہیں ان کے سلسلہ میں مولانا فراہی رحمہ اللہ کا ایک خاص موقف ہے۔اس لئے ان پر بحث سے قبل یہ جان لینا مناسب ہے کہ شان نزول سے مولانا کی مراد کیا ہے؟ مولانا فراہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "ليس شأن النّزول،كما قيل تسامحًا،سببًا لنزول آية أو سورة،بل هو شأن النّاس وأمرهم الّذي كان محلّا للكلام،فما من سورة إلا ولها أمر أو أمور جعلتها نصب العين وذلك تحت عمود السورة. فلك أن تلتمس شأن النزول من نفس السورة،فإن الكلام لا بدّ أن يكون مطابقا لموضعه." [2] کہ شانِ نزول کامطلب،جیسا کہ بعض لوگوں نےغلطی سے سمجھا ہے،یہ نہیں ہے کہ وہ کسی آیت یا سورہ کے نزول کاسبب ہوتا ہے،بلکہ اس سے مراد لوگوں کی وہ حالت وکیفیت ہوتی ہے جس پر وہ کلام برسر موقع حاوی ہوتا ہے۔کوئی سورت ایسی نہیں ہے جس میں کسی خاص امر یاچند خاص اُمور کو مدنظر رکھے بغیر کلام کیا گیا ہو اور وہ امر یا امور،جن کو کسی سورہ میں مدنظر رکھا جاتا ہے،اس سورہ کے مرکزی مضمون کے تحت ہوتے ہیں،لہٰذا اگر تم کو شانِ نزول معلوم کرنا ہو تو اس کو خود سورہ سےمعلوم کرو،کیونکہ کلام کا اپنےموقع محل کے مناسب ہونا ضروری ہے۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں: "بل تجسّس شأن النّزول من القرآن،ثم خذ من الأحاديث ما يؤيّد القرآن لا ما يبدّد نظامه ثم العبرة بشأن النّزول الّذي تبيّن من النّظم أوّل أمر تراعيه،فإن الحكم العام الّذي نزل في أمر وحالة خاصّة جعل لهذه الحالة شأنا يهدي إلى حكمة الحكم وجهته." [3]
Flag Counter