Maktaba Wahhabi

623 - 609
علمی وملّی خدمات ملازمت یوں تو مولانا فراہی رحمہ اللہ نے ساری عمر ہی طالب علمانہ بسر کی،لیکن رسمی تعلیم کا دوسرا دَور مکمل کرنے کے بعد وہ عملی زندگی کے وسیع میدان کی طرف قدم اٹھانے کیلئے گویا فارغ ہوگئے۔زندگی کے اس موڑ پر پہنچ کر مصروفیت اور معاش کا مسئلہ ہر شخص کے سامنے یکساں آ کر کھڑا ہوتا ہے اور کسی اطمینان بخش حل کی تلاش کا تقاضا کرتا ہے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ گو کہ گھر سے خوشحال تھے،معاش کی فکر کرنے کی انہیں ضرورت نہ تھی،لیکن گریجویشن کرتے ہی فکرِ معاش کے سایے ان کے سر پر منڈلانے لگے۔بی اے کرنے کے بعد ایم اے اور ایل ایل بی کرنے کی سوچ اسی لئے پیدا ہوئی،لیکن بوجوہ ان ارادوں کو پورا نہ کر سکے۔محسوس ہوتا ہے کہ گریجویشن کے بعد معاشی مسئلے کے حل کے لئے ایک عرصہ تک انہیں سر گرداں رہنا پڑا۔پھر تقریباً دو سال کے بعد مولانا کو پہلی ملازمت ملی۔اس درمیانی عرصے کو،جیسا کہ گزر چکا ہے،انہوں نے قانون کے مطالعے میں صرف کیا۔مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اس حوالے سے لکھتے ہیں: ’’مولانا اگرچہ ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لیے اپنی معاش کے لئے نوکری کے محتاج نہ تھے۔لیکن بعض خاص اسباب سے،جن کی تفصیل یہاںمناسب نہیں ہے،ا نہوں نے تعلیم سےفارغ ہونے کے بعد یہی بہتر خیال کیا کہ معاش کے لئے کوئی ملازمت اختیار کرلیں۔[1] یہ ایک مجبوری تھی۔والد کے زمانے میں گھر پر نہیں رہ سکتے تھے۔گھر اور زمینداری کے معاملات میں دخل نہیں دے سکتے تھے زمیندارانہ طورطریقوں سے انہیں بعد تھا،تجارت بھی نہیں کر سکتے تھے۔آخر پھر کیا کرتے؟ گھر سے باہر رہنے کی صورت میں یہی ہوسکتا تھاکہ کوئی شایانِ شان ملازمت اختیار کریں۔‘‘[2] کراچی میں عملی خدمات مولا نا فراہی رحمہ اللہ نے ملازمت کی ابتداء 1897ء میں مدرسۃ الاسلام کراچی سے کی،بقول ڈاکٹر ظفر الاسلام اصلاحی رحمہ اللہ یہاں وہ جنوری 1907ء تک مقیم رہے۔[3] مدرسۃ الاسلام کراچی میں مولانا کا تقرر فی الواقع عربی کے استاد کی حیثیت سے ہوا تھا،فارسی وہ مدرسہ کی ضرورت سے پڑھا دیتے تھے،یہ دونوں پیریڈز وہ چھٹی اور ساتویں کلاس کو پڑھاتے تھے۔عربی اور فارسی کے علاوہ کسی اور مضمون کے پڑھانے کا ذکر نہیں ملتا۔ان کی تنخواہ 100 روپے ماہوار تھی۔[4] 1899ء کے لگ بھگ کراچی میں مولانا کے یہاں تیسرے اور آخری بیٹے کی پیدائش ہوئی،جس کا نام عباد رکھا گیا۔دو بیٹوں حماد
Flag Counter