Maktaba Wahhabi

941 - 609
قرآن کریم شائع کرتی ہیں۔علاوہ ازیں دنیا کے بڑے بڑے قراء کی مختلف قراءتوں میں تلاوتیں موجود ہیں،مختلف قراءات پر مبنی قرآن بھی سعودی حکومت ہر سال شائع کر کے تقسیم کرتی ہے۔ہزاروں دینی مدارس،جامعات اور یونیورسٹیوں میں كليات القرآن الكريم قائم ہیں جن میں قراءات سبعہ وعشرہ متواترہ پڑھی پڑھائی جاتی ہیں۔اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اللہ عزو جل نے قرآنِ کریم کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے،اور اس کلام میں آگے پیچھے سے باطل چیز داخل نہیں ہوسکتی۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ[1] مزيد فرمايا:﴿لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ[2] جہاں تک مولانا فراہی رحمہ اللہ کے دعویٰ کا تعلق ہے کہ سورۂ لہب میں لفظ﴿حَمَّالَةَ﴾کے منصوب ہونے پر اجماع ہے تو یہ درست نہیں۔اَمر واقعہ یہ ہے کہ﴿حَمَّالَةَ﴾کا نصب قرائے عشر میں سے صرف عاصم کے ہاں ہے،باقی قراء اسے مرفوع پڑھتے ہیں۔[3] بنا بریں کہا جا سکتا ہے کہ قراءات متواترہ کے باب میں بھی مولانا فراہی رحمہ اللہ،جمہور مفسرین کی شاہراہ سے الگ ہیں اور اس مسئلہ میں ان کے اشہبِ فکر نے ٹھوکر کھائی ہے۔ قرآن و سنت کا باہمی تعلق مولانا فراہی رحمہ اللہ کے ہاں اصولِ تفسیر کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے قرآن پاک کو تمام علومِ شرعیہ کی اصل اور ان کا محور قرار دیا۔ان کی خواہش یہ تھی کہ قرآن پاک کی مثال ایک آفتاب کی ہو اور تمام علومِ دینیہ اور شرعیہ کی حیثیت اس کے نظامِ شمسی کی ہو اور یہ پورا نظامِ شمسی ہمیشہ اسی آفتاب عالم تاب کے گرد گردش کرتا نظر آئے،ہمیشہ اسی سے وابستہ ہو اور اسی سے اکتساب نور کر رہا ہو۔چنانچہ فرماتے ہیں: "فإن جعلت القرآن أصلا لتمام علم الدين كما هو في الحقيقة صار من الواجب أن یؤسّس أصول للتأويل بحيث تكون علما عاما لكل ما يؤخذ من القرآن. "[4] کہ اگر تم قرآن کو تمام علومِ دینیہ کی اصل قرار دیتے ہو جیسا کہ حقیقت میں وہ ہے بھی تو ضروری ہو جاتا ہے باقاعدہ تاویل کے اصول وضع کیے جائیں تاکہ قرآن پاک سے جو کچھ بھی اخذ کیا جائے اس کے لئے وہ عام روشنی کا کام دے سکیں۔ مزید فرماتے ہیں: "لا يخفى أن الدّين معظمه ترقية النفوس وتربية العقول وإصلاح الأعمال الظاهرة أي الأخلاق
Flag Counter