Maktaba Wahhabi

944 - 609
’’یہ ایک مسلمہ اَمر ہے جس میں کوئی مسلمان شک نہیں کر سکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات شریعت کے احکام کی ایک مستقل بنیاد ہیں،خواہ یہ قرآن سے مستنبط ہوں یا نہ ہوں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دیئے ہوئے احکام کتابِ الٰہی ہی سے مستنبط ہوتے تھے جیسا کہ متعدّد احکام کے ضمن میں خود آپ نے تصریح فرمائی اور قرآن میں بھی اس پر نصوص موجود ہیں۔‘‘[1] مجمل احکام قرآن کو بغیر احادیث کے سمجھنا اور ان آیات کا موقع و محل پہچاننا ایسا دشوار ہے جیسے بغیر پانی کے تشنگی کا فرو ہونا یا بغیربحری جہاز کے سمندر کا پار کرجانا۔شیخ عبدالجبار عمرپوری رحمہ اللہ نے قرآن و سنت کے اس تعلق کو کس عمدہ پیرایہ میں بیان کیا ہے: ’’دل کی کوئی بات بغیر زبان کے ظاہر نہیں ہو سکتی اور زبان بغیر دل کے اشارہ وارادہ کے حرکت نہیں کر سکتی،یہی کیفیت قرآن و حدیث کی ہے۔قرآن تمام جہاں میں ایسا ہے جیسے انسان کے اندر دل اور حدیث ایسی ہے جیسے منہ میں زبان۔قرآن قانون و قاعدہ کلّی مقرر کرنے والا اور حدیث اس کی شرح و تفصیل کرنے والی اور اس کی جزئیات و فروعات کو کھولنے والی ہے۔‘‘[2] قرآن و سنت کے اس تعلق کو مزید واضح کرنے کے لئے ذیل میں ہم اس کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کریں گے: كيا سنت کتاب اللہ پر قاضی ہے؟ مولانا فراہی رحمہ اللہ کے مطابق قرآن پاک کی باگ حدیث کے ہاتھ میں نہیں دی جا سکتی،کیونکہ وہ ظنّی ہے،احادیث میں صحیح اور سقیم دونوں طرح کی روایات ہوتی ہیں،لہٰذا قرآن کی بات کو اچھی طرح سمجھنے سے پہلے حدیث پر پل پڑنے سے دل ایسی آراء میں اٹک سکتا ہے جن کی قرآن میں کوئی اساس نہ ہو اور وہ قرآن کی ہدایت کے بر عکس ہوں،اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تاویل قرآن میں اعتماد حدیث پر ہو جائے گا اور حق وباطل گڈ مڈ ہوجائیں گے۔ اس کا حل مولانا فراہی رحمہ اللہ یہ تجویز کرتے ہیں کہ قرآن سے ہدایت حاصل کی جائے،اسی پر دین کی بنیاد رکھی جائے پھر احادیث کو دیکھا جائے اگر کوئی حدیث ظاہری نظر میں قرآن سے ہٹی ہوئی ہو تو اس کی تاویل کلام کی روشنی میں کی جائے،اگر دونوں میں مطابقت کی صورت نکل آئے تو فبہا،وگرنہ حدیث کے معاملہ میں توقف کیاجائے اور قرآن پر عمل کیا جائے۔مولانا فرماتے ہیں: ولكن ههنا مزلّة وخطر،وذلك أنك قبل أن تفهم القرآن،تتهافت على الحديث وفيه صحيح وسقيم فيعلق بقلبك من الآراء ما ليس له في القرآن أصل وربما يخالف هدي القرآن فتأخذ في تأويل القرآن إلى الحديث ويلبس عليك الحق بالباطل.فالسبيل السّوي أن تعلّم الهدي من القرآن وتبني عليه دينك،ثم بعد ذلك تنظر في الأحاديث،فإن وجدت ما كان شاردا عن القرآن حسب بادئ النظر،أولته إلى كلام اللّٰه فإن تطابقا فقرت عيناك،وإن أعياك،فتوقّف في أمر الحديث واعمل بالقرآن وقد أمرنا أولا بإطاعة اللّٰه ثم بإطاعة رسوله. [3]
Flag Counter