Maktaba Wahhabi

800 - 609
سميته:تناسق الدرر في تناسب السور" [1] کہ میری وہ کتاب جسے میں نے قرآن مجید کے اسرا ر و رموز کے حوالے سے مرتب کیا ہے وہ اس سلسلہ میں مدد گارہے،اس میں آیتوں اور سورتوں کے باہمی ربط و نظم کے ساتھ ساتھ قرآن کے وجوہ اعجاز اور اسالیب بلاغت کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔اس کتاب میں سے سورتوں کے باہمی نظم کے حصہ کی تلخیص کرکے میں نےاسےالگ الگ کتاب کی شکل میں مرتب کر دیا ہے اور اس کا نام میں نے ناسق الدرر في تناسب السور رکھا ہے۔ ابوالحسن الشہرابانی فرماتے ہیں: "أول من أظهر ببغداد علم المناسبة ولم نكن سمعناه من غيره هو الشّيخ الإمام أبو بكر النيسابوري وكان غزير العلم في الشريعة والأدب وكان يقول على الكرسي إذا قرئ عليه الآية لم جعلت هذه الآية إلى جنب هذه؟ وما الحكمة في جعل هذه السورة إلى جنب هذه السورة؟ وكان يزري على علماء بغداد لعدم علمهم بالمناسبة"[2] کہ پہلے شخص جنہوں نے بغداد میں علم مناسبت(نظم)کو ظاہر کیا وہ ابو بکر نیشاپوری ہیں۔فقہ و ادب میں ان کا بڑا رتبہ تھا۔ان کے لئے منبر رکھا جاتا تھا جس پر بیٹھ کر وہ قرآن کی آیتوں کی شرح کرتے اور بتاتے کہ فلاں آیت فلاں آیت کے پہلو میں کیوں رکھی گئی اور فلاں سورت کو فلاں سورت کے ساتھ رکھنے میں کیا حکمت ہے اور علمائے بغداد کی تنقیص کرتے تھے کہ وہ علم نظم سے محروم ہیں۔ نظم قرآن سے استفادہ کی حدود مذکورہ تمہید سے یہ بات ثابت کی جا چکی ہے کہ جمہور مفسرین نے نظم قر آن کو بے فائدہ یا کم از کم غیر اہم سمجھا ہے۔نیز متقدمین میں سے جنہوں نے نظم و مناسبت کے علم کی اہمیت و افادیت پر بات کی ہے انہوں نے اسے فوائد اور نکات کی قبیل سے شمار کیا ہے۔جیسا کہ امام زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ "وهذا النوع يهمله بعض المفسرين أو كثيرهم وفوائده غزيزة. " [3] کہ مفسرین کی ایک بڑی جماعت میں سے جو اس علم نظم کی اہمیت کو نظر انداز کرتی ہے،حالانکہ اس میں بڑے فوائدپنہاں ہیں۔ علوم قرآن پر لکھی گئی جامع کتابوں میں بھی نظم قرآن کو اصول تفسیر،شرائط تفسیر یا مفسر کی شروط میں شمار نہیں کیا گیا۔جمہور اہل سنت نے اصول تفسیر میں جن چیزوں کو ملحوظ رکھا ہے وہ یہ ہیں: (۱)۔قرآن (۲)۔حدیث (۳)۔اقوال صحابہ (۴)۔اقوال تابعین
Flag Counter