Maktaba Wahhabi

794 - 609
رہے جو قرآن میں موجود ہے۔[1] یہی بات قاضی عبدالجبار معتزلی اس طرح پیش کرتے ہیں: ’’یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ فصاحت مفرد کلمات میں نہیں ہوتی،بلکہ ایک مخصوص طریقہ کو اختیار کرکے کلام میں نظم و ارتباط پیدا کرنے سے فصاحت پیدا ہوتی ہے۔نظم و تالیف کے ساتھ ہر لفظ کی ایک صفت ہونی چاہئے۔یہ صفت بسا اوقات نظم و ترکیب سے اپنا مقام بناتی ہے اور کبھی اعراب کے ذریعہ اور کبھی موقع و محل سے امتیاز حاصل کر لیتی ہے۔ان تینوں کے علاوہ کوئی چوتھی شکل نہیں ہے۔اگر کوئی شخص اعتراض کر ے کہ فصاحت میں حسن معنی بھی شامل ہے،پھر تم نے اس کا خیال کیوں نہیں رکھا؟ تواس کے جواب یہ ہے کہ معانی کا حسن اگرچہ ناگزیر ہے،لیکن ان میں کوئی خصوصیت نہیں ہے۔اسی وجہ سے یہ صورت حال دیکھنے میں آئی ہے کہ ایک ہی مفہوم ادا کرنے والوں میں سے ایک شخص دوسرے پر بازی لے جاتا ہے۔جبکہ مفہوم دونوں کا ایک ہی ہوتا ہے،کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ معانی میں کمی پیشی نہیں ہوتی۔اس صورت میں تفاوت ان الفاظ میں ہوگا جو اظہار کا نامہ زیب کتے ہیں۔اگر یہ جملہ صحیح ہے تو خصوصیت دراصل تالیف کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔اس سے کلمات مخصوص ہوتے ہیں،یا تقدیم و تاخیر سے نکھار آتا ہے جو موقع و محل کے لئے خاص ہیں یا پھر حرکات سے حسن پیدا ہوتا ہے جو اعراب کے ساتھ خاص ہیں اور اسی سے کلام میں امتیاز پیدا ہوتا ہے۔‘‘[2] آیت و سور کی مناسبت اور نظم قرآن نظم کی اصطلاح متقدمین علمائے بلاغت کے ہاں جس معنیٰ و مفہوم میں مستعمل تھی،اس میں توسیع سب سے پہلے علامہ زمخشری معتزلی(538ھ)نے کی۔انہوں نے بھی اسی بات کا اظہار کیا کہ قرآن مجید اپنے جملوں کی ترکیب و تنظیم کے حسن بلاغت کی وجہ سے معجزہ ہے۔اس کے مقابلہ کا بلیغ جملہ پیش کرنے سے مخلوق عاجز ہے۔ علامہ موصوف سورہ نساء کی آیت نمبر 166 کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اللہ نے قرآن کو اپنے اس علم خاص کے ساتھ نازل کیا ہے جس سے کوئی واقف نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن کی ترتیب وتنظیم ایسے اسلوب اور نظم کے مطابق ہے جو ہر صاحب بلاغت اور صاحب بیان کے بس سے باہر ہے۔اور قرآن کی صحت اور صداقت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کا نزول ایسے معجزانہ نظم کے ساتھ ہوا ہے جو ہر کسی کی طاقت سے بلند ہے۔‘‘[3] زمخشری نے نظم قرآن کی اصطلاح کو مزید وسعت دیتے ہوئے مختلف آیات کے باہمی نظم و ربط تلاش کرنے کی طرف بھی توجہ کی۔اس سلسلہ میں انہوں نے جو کوشش کی اس کے چند نمونے سطور ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں: سورہ اعراف میں حضرت آدم و ابلیس کا واقعہ بیان ہوا ہے اور اس کا اختتام اس آیت پر ہوا ہے: ﴿قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ()قَالَ فِيهَا
Flag Counter