Maktaba Wahhabi

796 - 609
رازی رحمہ اللہ(606ھ)کے ہاں بھی ملتی ہے،لیکن زمخشری رحمہ اللہ کی طرح رازی نے بھی متفرق طور پر کہیں کہیں اس پر بحث کی ہے،پھر ان کے بعد امام بقاعی رحمہ اللہ نے بھی اس طرف اپنی عنان توجہ منعطف کی اور ظم الدرر في تناسب الآ یات والسور نامی اپنی تفسیر میں نظم قرآن پر کافی کام کیا۔اسی طرح شیخ مخدوم علی مہما ئمی رحمہ الله،(835ھ)،امام سیوطی رحمہ اللہ(911ھ)،محی الدين ابن عربی صوفی(638ھ)،علامہ ابو جعفر ابن الزبیر(708ھ)اور ابوالحسن الضرانی رحمہ اللہ(637ھ)نے بھی نظم ومناسبت کی رعایت سے تفسیریں لکھیں۔ مکمل قرآن کریم کا نظم قرآن کریم کی آیات اور سورتوں کے دخلی و خارجی نظم کے متعلق مذکورہ بالا اہل علم کے ہاں اگر چہ کافی بحثیں ملتی ہیں،لیکن ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ پورا قرآن بھی ایک ایسی وحدت ترتیب اور تنظیم رکھتا ہے جو اسے شروع سے آخر تک ایک کتاب کی طرح منضبط کلام کی شکل مہیا کرتی ہے۔ متاخرین میں سے جن اہل علم نے پورے قرآن مجید کو مربوط و منظم کتاب کی طرح ایک وحدت دینے کی کوشش کی ہے،ان میں مولانا حميد الدين فراہی رحمہ اللہ کا نام سب سے نمایاں ہے۔انہوں نے اس کے لئے نظم قرآن اور نظام قرآن کی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔انہوں نے نظم قرآن کے سابقہ تصورات کو وسعت دیتے ہوئے ایک نیا نظریہ اور فلسفہ پیش کیا ہے۔ وه لکھتے ہیں: ”بعض علماء نے آیات اور سورتوں کی باہمی مناسبت کے باب میں کئی تصانیف چھوڑی ہیں،لیکن نظم قرآن کے باب میں خاص کوئی تصنیف میرے علم میں نہیں آئی۔میرے نزدیک نظام اور مناسبت میں فرق ہے اور وہ فرق یہ ہے کہ مناسبت نظام کا محض ایک حصہ ہوتی ہے۔‘‘[1] مولانا فراہی رحمہ اللہ نے نظم قرآن کا جو فلسفہ متعارف کروایا ہے اسکی رو سے سورہ فاتحہ اس آسمانی کتاب کا دیباچہ،معوذ تین خاتمہ اور درمیانی سورتیں مختلف ابواب ہیں۔ان ابواب کے الگ الگ مرکزی مضمون(عنوان)ہیں اور ہر سورت اپنے باب کی ایک فصل کی حیثیت رکھتی ہے اور فصل کا بھی ایک مرکزی عنوان ہے جو اپنے باب کے مرکزی عنوان کے ساتھ ربط رکھتا ہے۔یوں پورا قرآن ایک کتابی و تصنیفی ربط کی صورت میں ڈھل جاتا ہے۔مولانا فراہی کا یہ فلسفہ ان کی معروف تصنیف دلائل النظام میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور اس میں انہوں قرآن مجید کی ایک سو چودہ سورتوں میں سے ہر سورت کا مرکزی موضوع(عمود)اور پھر ان کے ابواب کا مرکزی موضوع بھی متعین کیا ہے۔انہوں نے اپنے اس فلسفہ و نظر یہ کو عملی شکل دیتے ہوئے قرآن مجید کی مختلف سورتوں کی تفسیر بھی اسی نہج پر کی ہے،مگر وہ پورے قرآن کی تفسیر نہ کر پائے۔البتہ ان کے بعد ان کے شاگرد رشید جناب امین احسن اصلاحی(1997ء)نے اسی فلسفہ کی آبیاری کرتے ہوئے 9 جلدوں پر مشتمل ’تدبر قرآن ‘کے نام سے پورے قرآن مجید کی ضخیم تفسیر لکھی اور اپنی خداداد عقل و بصیرت سے ان تمام مباحث پر بھی قلم اٹھایا جنہیں ان کے استاذ فراہی نے تشنہ چھوڑ دیا تھا۔اس سلسلہ میں
Flag Counter