Maktaba Wahhabi

743 - 609
کرنے اور عبرت پذیری کیلئے تفسیر کی ضرورت ہے،اگر یوں ہوتا تو اس کے معنی یوں ہوتے کہ بلا سوچے سمجھے،علم قرآن سے پند وموعظت سیکھیں۔ 2۔ اگر تفسیر بالرائے ناجائز ہے تواجتہاد کیلئے بھی کوئی وجۂ جواز نہیں،حالانکہ اس کا بطلان واضح ہے،اس لیے کہ اجتہاد کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے،مجتہد غلطی پر ہونےکی صورت میں بھی عند اللہ اجر وثواب کا مستحق ہوتا ہے،جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قرآنی آیات کی تفسیر نہیں کی اور ان میں مندرج احکام کوواضح نہیں کیا تو لا محالہ ان میں غور وفکر کرنا پڑے گا۔ 3۔ صحابہ کرام رضی الہ عنہم قرآن کریم پڑھتے تھے اور اس کے معانی ومطالب میں باہم اختلاف بھی کرتے تھے۔ظاہر ہے کہ انہوں نے یہ تمام معانی ومطالب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنے تھے۔خلاف ازیں ان میں سے بعض معانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کئے اور بعض انہوں نے اپنی ذاتی محنت وکاوش سے معلوم کئے،اگر قرآنِ کریم کی تفسیر بالرّائے ممنوع ہوتی تو صحابہ کرام ایک فعل حرام کے مرتکب ٹھہرتے۔صحابہ کا مقام اس سے کہیں بلند ہے کہ ان کو محرمات کا مرتکب ٹھہر ایا جائے۔ 4۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حق میں دعا فر مائی تھی: ((اللّٰهم فَقِّهْهُ فِي الدِّينِ وَعَلِّمْهُ التَّأْوِيلَ))[1] کہ اے اللہ!اس کو دین کا فہم عطا کر اورقرآن کی تاویل سکھا دے۔ اگر تفسیر قرآن کا مدار وانحصار نقل وسماع پر ہوتا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حق میں اس دُعا کا کوئی فائدہ نہ تھا۔اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حق میں جس تاویل کی دُعا فرمائی تھی،وہ نقل وسماع کے سوا کچھ اورہے اوروہ رائے واجتہاد پر مبنی تفسیر وتاویل ہے۔ راہِ اعتدال صحیح بات یہ ہے کہ یہ دونوں موقف افراط وتفریط پر مبنی ہیں۔ہر شخص کو کھلی چھٹی دے دینا بلا شبہ غلو وافراد ہے جبکہ صرف تفسیر بالماثور تک محدود رہنا تفریط ہے۔تاہم مانعین نے جس سختی سے تفسیر بالرائے کا ردّ کیا ہے اگر اس کے اسباب و وُجوہ پر غور کیا جائے اورساتھ ہی دیکھا جائے کہ جن لوگو ں نے تفسیر بالرّائے کی اجازت دی ہے،انہوں نے اس ضمن میں کون سی شرائط عائد کی ہیں،تفسیر بالرّائے کیلئے جن کا پایا جانا ضروری ہے،اس کے ساتھ ساتھ دقّتِ نظر کے ساتھ فریقین کے براہین ودلائل کا تجزیہ کیا جائے،تو یہ حقیقت نمایاں ہوتی ہے کہ یہ اختلاف ونزاع صرف لفظی ہے،حقیقی نہیں ہے،اس کی تفصیل حسب ذیل ہے: رائے کی دوقسمیں ہیں: 1۔ جو کلامِ عر ب کے موافق اور کتاب وسنت سے ہم آہنگ ہو اور اس میں تفسیر کے تمام ضروری شرائط کو ملحوظ رکھا گیا ہو۔اس قسم کی رائے بلاشبہ جائز اور درُست ہے،جن علماء نے تفسیر بالرّائے کی اجازت دی ہے،ان کی مراد اسی قسم کی رائے ہے۔
Flag Counter