Maktaba Wahhabi

884 - 609
تفسیر قرآن بذریعہ اقوالِ صحابہ علمائے مفسرین نے اُصول مقرر کیا ہے کہ جب قرآن پاک کی تفسیر قرآن اور حدیث سے نہ ملے تو پھر صحابہ کرام کے اقوال سے لینی چاہئے،اس لئے کہ انہوں نے احوال و قرائن اس وقت کے دیکھے بھالے ہیں۔وہ نزول قرآن کے وقت حاضر و موجود ہوتے تھے۔فہم تام،علم صحیح،عمل صالح رکھتے تھے اور یہ بات بہت بعید ہے کہ وہ قرآن پاک کی تفسیر بیان کریں اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو سنا نہ ہو۔اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ انہوں نے نہیں سنا تو بھی وہ ان علماء میں ہیں جو لغتِ عرب کی تل تل سے واقف تھے،بال کی کھال نکالتے تھے۔خصوصاً جو ان میں بڑے بڑے عالم تھے،جیسے خلفائے اربعہ،ابن مسعود(32ھ)،ابن عباس(68ھ)،اُبی بن کعب(30ھ)،زید بن ثابت(45ھ)،ابو موسیٰ اشعری(44ھ)،عبداللہ بن زبیر(73ھ)اور ان کے علاوہ انس بن مالک(93ھ)،عائشہ صدیقہ(57ھ)،ابوہریرہ(57ھ)،ابن عمر(73ھ)،جابربن عبد اللہ(74ھ)وغیرہم رضی اللہ عنہم۔سیدنا ابن مسعود سے مروی ہے: "والذي لا إله غيره،ما نزلت آية في كتاب اللّٰه إلا وأنا أعلم فيمَ نزلت؟ وأينَ أنزلت؟ ولو أعلم مكانَ أحدٍ أعلمَ بكتاب اللّٰه مِنّى تنالُه المطايا لأتيته."[1] کہ اس رب کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں!نہیں اُتری کوئی آیت کتاب اللہ کی مگر مجھے معلو م ہے کہ کس کے حق میں اتری ہے اور کہاں اتری ہے؟ اگر میں جانوں کہ کوئی شخص مجھ سے زیادہ قرآن جانتا ہے اور میں اس تک پہنچ سکتا ہوں تو میں ضرور اس کے پاس پہنچوں گا۔ اسی طرح فرمایا: "كانَ الرجل مِنَّا إذا تعلَّم عَشْرَ آياتٍ لم يجاوزهُنّ حتّى يعرف معانيَهُنَّ،والعملَ بِهنَّ. "[2] کہ جوکوئی ہم میں سے دس آیات سیکھ لیتا تھا جب تک وہ اسکے معنی نہ پہچان لیتا اور اس پر عمل نہ کر لیتا،تب تک آگے نہ بڑھتا۔ واضح رہے کہ تفسیر قرآن میں اقوالِ صحابہ کی تین اقسام ہیں: 1۔مرفوع حکمی روایات مرفوع حکمی روایات سے مراد صحابہ کرام کے وہ اقوال ہیں جن میں عقل و رائےاور اسرائیلیات وغیرہ کا دخل نہ ہو۔گویا یہ صحابہ کرام کے وہ تفسیری اقوال ہیں جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنےاور سیکھے،لیکن پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کیے بغیر آگے اُمّت تک پہنچا دئیے۔ارباب تفسیر اور محدثين رحمہم اللہ نے بالاجماع انہیں بھی حدیثِ مرفوع ہی کے حکم میں داخل کیاہے،علمائے کرام سے وضاحت سے لکھا ہے:
Flag Counter