Maktaba Wahhabi

631 - 609
دیگر واقعات 1916ء میں انیس احمد بی اے نے اجزائے تفسیر کا جو اس وقت تک مکمل ہو چکے تھے،اردو ترجمہ کر کے مولانا کو دکھایا۔ایک شہادت کے مطابق اسی سال مولانا نے پارہ عم کا اردو ترجمہ کیا۔[1] دار العلوم کالج کے لئے مولانا کا تقرر ابتداء تین سال کے لئے ہوا تھا۔یہ مدت ختم ہوئی تو مدت ملازمت میں تین سال کی مزید توسیع کر دی گئی۔[2] یہاں بھی حسب معمول ان کی تدریسی وتصنیفی مصروفیات جاری رہیں۔مولانا کی پرنسپلی کے دوران ہی دار العلوم میں سائنس کی تعلیم کا اہتمام کیا گیا۔اس سے اہم یہ کہ اسی اثناء میں نے انہوں نے ریاست کے ارباب حل وعقد کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ عصری علوم وفنون کی تعلیم اُردو میں دی جائے۔ان کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ دینیات کے علاوہ باقی تمام مضامین کے لئے اُردو کو ذریعہ تعلیم قرار دیا جائے۔اس تجویز کا پس منظر یہ ہے کہ اس زمانہ میں ریاست حیدر آباد کے زیر اہتمام دار العلوم کو ترقی دے کر ایک مشرقی یونیورسٹی بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی اور اس کے لئے خاکہ بھی تیار ہو رہا تھا۔مولانا فراہی رحمہ اللہ نے اپنے تخیل کے مطابق اس کا تفصیلی خاکہ بنا کر ریاست کے تعلیمی امور کے ذمہ داروں کے سامنے پیش کیا اور مشہور روایت کے مطابق اس کی عملی شکل جامعہ عثمانیہ کی صورت میں ظاہر ہوئی۔[3] حیدر آباد میں قیام کے زمانہ میں مولانا فراہی رحمہ اللہ کتب خانہ آصفیہ کی مجلس انتظامی کے رکن اور کمیٹی امتحانات السنہ شرقیہ کے صدر مقرر ہوئے۔آپ کی کتابوں خرد نامہ،اسباق النحو واسباق الصرف کی اشاعت انہی دنوں عمل میں آئی۔انہوں نے اپنے استاد مولانا فیض الحسن سہارنپوری کا دیوان مرتب کیا تھا وہ بھی اسی اثناء میں شائع ہوا۔الرّأي الصّحیح في من هو الذّبیح کی تصنیف بھی اسی زمانہ کی یادگار ہے۔تفسیر کے بعض مقدمات بھی لکھے۔اسی کے ساتھ درسِ قرآن کا ایک حلقہ قائم کیا،مغرب کے بعد یہ مجلس جمع ہوتی تھی،مولانا مناظر احسن گیلانی،مولوی وحید الدین صاحب سلیم(1928ء)مرحوم بھی اس میں شریک ہوتے تھے۔[4] مولانا شبلی رحمہ اللہ کی فرمائش پر نواب عماد الملک مرحوم(1926ء)نے قرآن پاک کے انگریزی ترجمہ کا جو کام شروع کیا تھا،وہ نصف کے قریب انجام پا چکا تھا،مگر اس میں جا بجا نقائص تھے،نواب صاحب نے مولانا فراہی رحمہ اللہ کی موجودگی سے فائدہ اٹھایا اور مدت تک یہ شغل جاری رہا کہ مولانا روزانہ صبح کو نواب صاحب کے یہاں جاتے اور نواب صاحب بایں ہمہ ضعف وپیری،انگریزی ترجمہ پر مل کر غور کرتے اور مناسب مشورہ ملنے پر اصلاح وترمیم کرتے۔اس طرح ان کے ترجمے کے کئی پاروں پر نظر ثانی ہوئی،لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ نواب صاحب مرحوم کی وفات کے بعد یہ اصلاح شدہ اجزا اس طرح کاغذات میں مل گئے کہ پھر ان کا پتہ نہ چلا۔[5]
Flag Counter