Maktaba Wahhabi

938 - 609
کہ جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے،ان کو درد ناک عذاب کی بشارت دے دو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو اہلِ زبان تھے۔جب انہوں نے یہ آیت سنی تو پریشان ہوگئے۔’کنز‘ کے معنی جمع کرنے کے ہیں،خواہ تھوڑا مال ہو یا زیادہ۔انہوں نے کہا:أینا لم یکنز؟ کہ ہم میں سے کون ہے جس کے پاس کنز نہیں؟ تھوڑا بہت سونا چاندی تو تقریباً سب کے پاس ہے۔اب کیا عذابِ جہنم کی سب کے لئے بشارت ہے؟تو نبی کریم نے وضاحت اس طرح فرمائی: ((مَا بَلَغَ أَنْ تُؤَدَّىٰ زَكَاتَه فَزُكِّي فَلَيْسَ بِكَنْزٍ))[1] کہ جو مال نصاب زکوٰۃ کو پہنچ جائے اور اس کی زکوٰۃ دے دی جائے تو وہ کنز نہیں ہوتا۔ تفسیر قرآن بذریعہ قرآن میں قراءات سے استفادہ تفسیر قرآن بذریعہ قرآن کے سلسلہ میں اختلافِ قراءات کو بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے۔صحابہ کرام اور تابعین بعض آیات کی تفسیر میں اختلافِ قراءات سے استفادہ کرتے رہے ہیں۔خصوصاً سیدنا عبد اللہ بن مسعود اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قراءات تو تفسیر کے سلسلہ میں بہت زیادہ اہمیت کی حامل رہی ہیں۔امام مجاہد بن جبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "لو كنت قرأت قراءة ابن مسعود لم أحتج إلى أن أسأل ابن عبّاس عن كثير من القرآن ممّا سألت"[2] كہ اگر میں سیدنا ابن مسعود کی قراءت کو اختیار کرتا تو میرے بہت سے سوالات سیدنا ابن عباس سے استفسار کئے بغیر ہی حل ہوجائے۔ بلکہ بعض علماء نے تفسیری ارتقاء کے سلسلہ میں اختلافِ قراءت کو پہلا زینہ قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ تدوین تفسیر میں یہ پہلی کوشش تھی جسے صحابہ وتابعین نے اختیار کیا۔مشہور مفسر علامہ ابو حیان اندلسی رحمہ اللہ(745ھ)نے تفسیر کی تعریف میں علم القراءات کو باقاعدہ ذکر کیا ہے۔[3] مگر اس سلسلہ میں یہ بات اہم ہے کہ قراءاتِ متواترہ تو نصوصِ قرآن کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن صحیح سند سے ثابت قراءتِ شاذہ کو ہم تفسیری مراجع میں شمار کر سکتے ہیں،اس پر تمام علمائے اُمت کا اجماع ہے۔[4] علماء نے واضح کیا ہے کہ دو متواتر قراءات کی حیثیت تفسیر میں دو قرآنی آیات کی ہوتی ہے۔جس طرح تفسیر قرآن میں دیگر آیاتِ قرآنی سے استفادہ کیا جاتا ہے اور یہ سب سے بہتر طریقۂ تفسیر ہے،بالکل اسی طرح تفسیر قرآن میں قراءاتِ متواترہ کا درجہ ہے۔امام احمد بن علی جصاص رحمہ اللہ(370ھ)فرماتے ہیں: "فإن القراءتين كالآيتين،في إحداهما الغسل وفي الأخرى المسح لاحتمالهما للمعنيين،فلو وردت
Flag Counter