Maktaba Wahhabi

1072 - 609
خود ساختہ شانِ نزول ایک طرف مولانا فراہی رحمہ اللہ اسبابِ نزول کے سلسلہ کی صحیحین کی روایات کو قرآن کے معنیٰ،نظم اور فہم میں رُکاوٹ قرار دیتے ہوئے شانِ نزول کو خود قرآن سے اخذ کرنے پر زور دیتے ہیں،دوسری طرف بعض مقامات پر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی طرف سے نزولِ آیات کا ایسا پس منظر بیان کرتے ہیں جس میں بےجا تکلف محسوس ہوتا ہے اور اس کے بغیر بھی آیات کی تشریح بخوبی ہوسکتی ہے۔مثلاً آیتِ کریمہ:﴿إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ﴾کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "فلمّا أظهر النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم بعض السّخط على إفشاء السّر بينهما،وقلل الاستئناس بهما كبر ذلك عليهما وهيج فيهما الحمية والغيرة. وهذه قلّما تفارق أهل الشرف والعزة،مع أنها في بعض الأحيان خطأ. فأعرضتا عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم بعض الإعراض،كما يقع بين المرء وزوجته،وحسبتا أنه ليس في شيء من الدّين." [1] کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے افشائے راز پر کسی قدر ناخوشی کا اظہار فرمایا اور کچھ کھینچے کھینچے سے ظاہر ہوئے تو ان دونوں بیبیوں پر یہ بات شاق گزری اور ان میں ایک طرح کا جذبۂ غیرت و حمیت بھڑک اٹھا۔ہر چند کہ یہ جذبہ ہر محل و مقام میں پسندیدہ نہیں ہے،لیکن باعزت و شریف طبائع کے اندر یہ ایسافطری جذبہ ہے کہ ایسے مواقع پر اس کا دبا رہنانہایت ہی مشکل ہے۔پس جیسا کہ میاں بیوی کی باہمی زندگی میں عام طور پر ہوتا ہے،یہ دونوں بیویاں بھی آپ سے روٹھ گئیں۔انہوں نے نے خیال کیا کہ(یہ آپس کے نجی تعلقات کا ایک معاملہ ہے جس کا)دین سے کوئی تعلّق نہیں۔ اس اقتباس میں یہ باتیں کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ کھینچے کھینچے سے ظاہر ہوئے۔‘‘،’’دونوں بیویوں میں ایک طرح کا جذبۂ غیرت و حمیت بھڑک اٹھا‘‘،’’ دونوں بیویاں آپ سے روٹھ گئیں۔‘‘ کس آیت کے بین السّطور سے معلوم ہوتی ہے؟ کیا ان کے بغیر آیت کی تشریح ممکن نہیں؟ اگر ہےتو بلا ضرورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواجِ مطہرات کی طرف ایسی باتیں منسوب کرنےکی کیا ضرورت ہے؟ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ روایات میں اس قسم کی تصریحات مذکور نہیں ہیں۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ اور تفسیری روایات کی سند مولانا فراہی رحمہ اللہ نے تفسیری روایات پر اپنی تنقیدوں کے دوران جابجا ایسی تصریحات کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک سند کی بہت اہمیت ہے اور وہ روایات کو اس لئے قبول نہیں کرتے،کیونکہ ان کی سندیں نہایت ضعیف ہوتی ہیں،مثلاً: 1۔ واقعۂ ذبح کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: "إنّه لا يصحّ من هذه الرّوايات ما يرفع إلى النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم." [2]
Flag Counter