Maktaba Wahhabi

1075 - 609
بعد روایات پرنظر ڈالی جائے اور کمزور روایات کو صحیح روایات سے چھانٹ کر الگ کیا جائے۔ گویا روایات سے بالکل الگ ہوکر واقعہ کی جو اصلی شکل نظر آئے،جو روایات اس کے مطابق ہوں وہ صحیح ہوں گی،اور جو اس سے متعارض ہوں وہ ضعیف ہوں گی۔ 7۔ آیتِ کریمہ:﴿فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا[1] پربحث کرنے کے بعد اس کی شان نزول میں سيدنا ابن عباس سے منسوب روایت سے متعلّق فرماتے ہیں: "ولا أدري أي حاجة حمل النّاس على العدول عن معنى اللّفظ وفحوى الكلام،غير أن عوّلوا على بعض الرّوايات المكذوبة على ابن عبّاس رضي اللّٰه عنه وحاشاه عنه ذلك." [2] کہ نہیں معلوم یکسر جھوٹی روایات پر بھروسہ کرکے،جو سیدنا ابن عباس کی طرف منسوب کی جاتی ہیں،حالانکہ ان کادامن ان سے پاک ہے،لوگوں نے لفظ کے ٹھیک معنی ٰاور کلام کے صحیح مدّعا سے اعراض کیوں جائز سمجھا؟ یہاں بھی مولانا فراہی رحمہ اللہ نے روایت کو محض درایۃً جھوٹی قرار دیا ہے۔حالانکہ اسکے بعض حصوں کو وہ صحیح مانتے ہیں اور اسی بنیاد پر﴿تَتُوبَا﴾کافاعل سیدہ عائشہ و حفصہ رضی اللہ عنہما کو قرار دیتے ہیں او راسی بنیاد پر انہوں نے سیدنا عمر کے بعض اقوال نقل کئے ہیں۔ لفظ﴿وَأَبَا﴾کے ذیل میں یہ تو لکھتے ہیں کہ پہلی روایت منقطع ہے اور دوسرا مضطرب،لیکن انقطاع و اضطراب کی کوئی وضاحت نہیں کرتے،بلکہ اس کے بعد جتنے وجوہِ ضعف بیان کرتے ہیں سب درایت سے متعلّق ہیں۔ سیدنا ابن اُم مکتوم(15ھ)کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر تعلیم سیکھنے کی درخواست کرنے سے متعلّق متعدّد روایات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ باعتبارِ سند یہ روایتیں انتہائی ضعیف ہیں،لیکن کیا ضعف ہے؟ اسکی بالکل وضاحت نہیں کرتے۔ ضعیف روایات سے استدلال ایک طرف مولانا فراہی رحمہ اللہ کی،روایات کے سلسلہ میں یہ شدّت پسندی ہے،دوسری طرف اگر وہ خود آیات کی تشریح ضعیف اور خلافِ نظم روایات سے کرنے لگیں تو یہ تعجّب کی بات ہوگی۔اس سلسلہ کی ایک مثال سطورِ ذیل میں پیش کی جاتی ہے۔مولانا فرماتے ہیں: "والتّفسير بحديث يناسب المقام إذا لم يقرّر عقيدة ومذهبا مأمون،ولكن مع ذلك ظنّي،فآخذ به مع إمكان غيره کما في سورة الحجر:﴿كَمَا أَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِينَ()الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ[3] روي أن الكافرين قالوا بعضهم لبعض استهزاءً:أنا آخذ البقرة وأعطيك المائدة أو العنكبوت. فهذا المعنى مأخون ولكن غير يقيني." [4]
Flag Counter