Maktaba Wahhabi

989 - 609
کفر کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور اللہ عزو جل اس کا کفر نہیں چاہتے تو اللہ عزو جل اس مومن بندے اور کفر کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔ 4۔ زمخشری رحمہ اللہ اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "قیل معناه:إن اللّٰه قد يملك على العبد قلبه فیفسخ عزائمه،ویغیر نياته ومقاصده،ویبدله بالخوف أمنًا،وبالأمن خوفاً،وبالذّکر نسیانًا و بالنّسیان ذکرًا." [1] کہ کہا گیا ہے کہ اس آیت مبارکہ کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ عزو جل بندے کے دل پر قبضہ کرلیتا ہےاو راس کے عزائم کو توڑ دیتا ہے۔اس کی نیت اور مقاصد کو تبدیل کر دیتا ہے اس کے خوف کو امن میں اور امن کو خوف میں بدل دیتا ہے۔اس کو یاد شے بھلا دیتا ہے اور بھولی ہوئی شے یاد دلا دیتا ہے۔ 5۔ امام ابن عطیہ رحمہ اللہ اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں رقمطراز ہیں: ومنها:أن یکون المعنی ترجية لهم بأن اللّٰه يبدل الخوف الذي في قلوبهم من كثرة العدوّ فيجعله جرأة وقوّة وبضد ذلك الكفار،فإن اللّٰه هو مقلّب القلوب كما كان قسم النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم،قال بعض النّاس:ومنه لا حول ولا قوة إلا باللّٰه،أي لا حول على معصية ولا قوة على طاعة إلا باللّٰه." [2] کہ ان میں سے ایک معنی یہ بھی ہے کہ اللہ عزو جل ان کے دلوں میں دشمن کی کثرت کا جو خوف ہے اسے قوت اور بہادری سے تبدیل کردے گا اور یہی خوف کفار کے دلوں میں پیدا فرما دے گا۔بے شک اللہ عزو جل دلوں کو پھیرنے والا ہے۔جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قسم اٹھایا کرتے تھے۔بعض کا کہنا ہے کہ لاحول ولا قوّة إلا باللّٰه کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اللہ کی مشیت کے بغیر نہ تو کسی میں نیکی کی طاقت ہے اور نہ ہی کسی میں معصیت کی جرأت۔ 2۔﴿وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَى إِسْحَاقَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِنَفْسِهِ مُبِينٌ[3] سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیتِ مبارکہ میں جن دو اشخاص کا تذکرہ ہے،وہ سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسحاق ہیں۔اس آیت میں سیدنا اسماعیل کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے،لیکن مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک اس آیتِ مبارکہ میں جن دو اشخاص کاتذکرہ ہے،وہ سیدنا اسماعیل اور سیدنا اسحٰق ہیں۔مولانا فرماتے ہیں: "فكأنّه قيل:وباركنا على إسماعيل وإسحاق ومن ذرّيتهما محسن وظالم لنفسه مبين." [4] کہ گویا پوری بات یوں کہی گئی ہے کہ ہم نے اسماعیل اور اسحاق پر اپنی برکت وسلامتی نازل کی او ران دونوں کی اولاد میں سے کچھ
Flag Counter