Maktaba Wahhabi

756 - 609
اسماعیل احمد البسیط رحمہ اللہ لکھتے ہیں: بہت سے تابعین نے حسن بصری رحمہ اللہ سے علم تفسیر کے سلسلے میں بہت سے اقوال نقل کئے ہیں۔قرن ثانی کے علماء تابعین میں سے ہارون الحجازی رحمہ اللہ نےالوجوہ والنظائر القرآنية میں قرآنی آیات کے بہت سے وجوہ نقل کرکے انہیں اپنے مخطوطہ میں درج کیا ہے۔اس کتاب(ص33)میں ہارون الحجازی رحمہ اللہ نے سعی کے بارے میں لکھا ہے کہ اس سے مراد مشي یعنی چلنا ہے۔سورۂ بقرہ میں ارشادِ باری تعالی ہے:﴿يَأْتِينَكَ سَعْيًا[1]کہ پھر تم انہیں بلاؤ تمارے پاس چل کر آئیں گے۔یعنی اپنے پاؤں سے چل کر۔اس طرح ارشادِ باری:﴿فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ[2] میں سعی سے مراد مشي ہے۔حسن بصری رحمہ اللہ نے اس آیت کے بارے میں فرمایا:یعنی عمل،او رپھر اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر کی[3] عکرمہ رحمہ اللہ اور تفسیر القرآن باللغۃ عکرمہ رحمہ اللہ نے تفسیر کا علم ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سیکھا ہے اس لئے ان میں بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما کا انداز تفسیر پایا جاتا ہے۔وہ بھی تفسیر میں کلامِ عرب سے استشہاد کرتے ہیں اور غریب القرآن کے معانی کیلئے عرب شعراء کے اشعار سے دلیل پیش کرتے ہیں۔ 1۔ ایک آدمی نے عکرمہ رحمہ اللہ سے زنیم[4]کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا:اس سے مراد ولد الزنا(ناجائز بچہ)ہے۔دلیل میں انہوں نے یہ شعر پیش کیا: زَنِيمٌ لَيْسَ يُعْرَفُ مَنْ أَبُوهُ بَغِيُّ الْأُمّ ذُو حَسَبٍ لَئِيم[5] کہ وہ ناجائز کی اولاد ہے جس کا باپ بھی معلوم نہیں،اس کی ماں بدکار ہے اور وه کمینے حسب والا ہے۔ زَنِيمٌ تَدَاعَاهُ الرّجَالُ زِيَادَةً كَمَا زِيدَ فِي عَرْضِ الْأَدِيمِ الْأَكَارِعُ[6] 2۔ ارشادِ باری تعالیٰ﴿ذَوَاتَا أَفْنَانٍ[7]کے بارے میں عکرمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وہ دونوں سائے اور شاخوں والے ہیں۔اس کی دلیل میں وہ یہ شعر پیش کرتے ہیں: مَا هَاجَ شَوْقَكَ مِن هَدِيل حَمَامَةٍ تَدْعُو عَلىٰ فَنَنِ الغُصُونِ حَمَاما[8]
Flag Counter