Maktaba Wahhabi

967 - 609
لفظِ خاص کی اپنے معنی پر دلالت قرآن کریم جو کہ عربی زبان میں ہے،اس کا ہر لفظ اپنی وضع کے اعتبار سے یا توخاص ہو گا یا عام۔قرآن کے خاص الفاظ کے بارے میں فقہاء اور اصولیین کا اتفاق ہے کہ وہ قطعی الدلالۃ ہوتے ہیں یعنی ان الفاظ کا معنی ایک ہی ہو تا ہے اور اس معنی میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہوتی۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: "يدل الخاص بإتفاق الحنفيّة والمذاهب الأخری علی معناه الذی وضع له علی سبیل القطع والیقین ما لم یدلّ دلیل علی صرفه عن معناه وإرادة معنی آخر. فالمراد بالقطع هنا أنه لا یحتمل غیر معناه احتمالا ناشئا عن دلیل و لیس المراد به أنه لا یحتمل غیر معناه أصلًا. " [1] کہ احناف اور باقی مذاہب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ لفظِ خاص اپنے اس معنی پر کہ جس کے لیے اس کو وضع کیا گیا ہے ‘قطعیت اور یقین کے ساتھ دلالت کرتا ہے جب تک کہ کوئی ایسی دلیل موجود نہ ہو جو اس کو اس کے موضوع لہ معنی سے پھیر دے اور کسی دوسرے معنی کی طرف لے جائے۔قطعیت سے یہاں مراد یہ ہے کہ لفظِ خاص میں کسی دلیل کی وجہ سے کسی اور معنی کا احتمال نہیں ہوتا‘ نہ کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اس میں اصلا کسی دوسرے معنی کا احتمال نہیں ہوتا۔ مثلا قرآن كريم میں ہے: ﴿تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ[2] کہ ہلاک ہو ں ابو لہب کے دونوں ہاتھ،اور وہ خود بھی ہلاک ہو۔ اس آیت مبارکہ میں لفظ﴿أَبِي لَهَبٍ﴾خاص ہے اور اس سے مراد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چچاہے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لایا تھا اور آپ کو اذیت پہنچاتا تھا۔یہ لفظ اپنے مفہوم میں قطعی الدلالۃ ہے یعنی اس میں کسی اور مفہوم کی گنجائش نہیں ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں ہے: ﴿الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ[3] کہ زنا کرنے والا مرد اور زنا کرنے والی عورت،پس تم ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔ اس آیت مبارکہ میں﴿مِائَةَ﴾لفظِ خاص ہے کہ جس کا معنی سو ہے،کیونکہ اس سے مراد ’ننانوے ‘ یا ’ایک سو ایک‘ نہیں ہوتے،اس لیے یہ لفظ اپنے معنیٰ میں قطعی الدلالۃ ہے۔ لیکن اگر کوئی قرینۂ صارفہ یا دلیل موجود ہو تو خاص کو اس معنی سے پھیرا جا سکتا ہے کہ جس کے لیے وہ وضع ہوا ہے۔ مثلاً قرآنِ کریم میں ہے:
Flag Counter