Maktaba Wahhabi

996 - 609
لیکن تفسیر القرآن بالقرآن کے اصول کے تحت مولانا کا یہ استدلال غلط اور جمہور مفسرین کے موقف کے خلاف ہے۔جمہور مفسرین کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اخلاقِ عالیہ کے مرتبۂ کمال پر فائز تھے۔لیکن اس موقع پر ان سے جو معمولی کوتاہی ہوئی،جس طرح نبی اکرم سے بعض دیگر اعمال بھی جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے،بشری تقاضوں کے تحت سرزَد ہوئے تھے،اگرچہ اُمّت کے اعتبار سے یہ غلطی نہ تھی،لیکن آپکے منصبِ نبوت اور بلند ترین مقام کے شایانِ شان بھی نہ تھی،جس پر اللہ نے تنبیہ نازل فرمائی۔[1] 7۔تفسیر سورۂ لہب مولانا حمیدالدین فراہی رحمہ اللہ نے سورۂ لہب کی انفرادی تفسیر یہ پیش کی ہے کہ در اصل یہ بددعا نہیں بلکہ فتحِ مکہ کی بشارت ہے۔انہوں نے اپنے اس مؤقف کی تائید کے لئے نظمِ قرآن(سورتوں کے عمود)اور لغتِ عرب کے ساتھ ساتھ تفسیر قرآن بذریعہ قرآن کے اصول کے تحت قرآنی آیات سے بھی استدلال کیا ہے کہ قرآنِ مجید اخلاقِ حسنہ واقدارِ عالیہ کو اپنانے کا درس دیتا ہے اور جاہلوں کےساتھ دورانِ گفتگو عمدہ وشائستہ لب و لہجہ اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔اب یہ کیسےہوسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان اخلاقِ حمیدہ اور صفاتِ عالیہ کو چھوڑ کر ان کے ساتھ سخت اور ترش رویّہ اختیار کرتے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’یہ صحیح ہے کہ ابولہب نے ذاتِ رسالت کی شانِ اقدس میں نہایت سفیہانہ اور گستاخانہ الفاظ استعمال کئے تھے لیکن قرآنِ مجید جاہلوں سے درگزر کرنے اور ان سے عمدہ وشائستہ لب و لہجہ میں خطاب کرنےکی تعلیم دیتا ہے۔فرمان باری ہے:﴿ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ[2] کہ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ سے بلاؤ،اور ان کے ساتھ اس طریقہ سے بحث کرو جو اچھا طریقہ ہے۔دوسرے مقام پر فرمایا:﴿فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ()إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ[3] کہ پس تم کو جس بات کا حکم ملا ہے اس کا اعلان کرو اور مشرکین سے اعراض کرو۔مذاق اڑانے والوں کے لئےتمہاری طرف سے ہم کافی ہیں۔ایک اور مقام پر فرمایا:﴿وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ[4] کہ بلا شبہ قیامت ضرور آنے والی ہے پس خوبصورتی سے درگزر کرو۔ایک اور جگہ ہے: ﴿فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَامٌ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ[5] کہ ان سے درگزر کرو اور کہو سلام،یہ عنقریب جان لیں گے۔اسی طرح اپنے خاص بندوں کی تعریف میں فرمایا:﴿وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا[6] کہ جب ان کو جاہل مخاطب کرتے ہیں،وہ کہتے ہیں سلام۔حضرت ابراہیم او ران کے باپ کے مکالمے میں ہے:﴿قَالَ أَرَاغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي يَاإِبْرَاهِيمُ
Flag Counter