Maktaba Wahhabi

772 - 609
مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کا تصورِ نظم مولانا فراہی رحمہ اللہ(1930ء)کے ہاں قرآنِ مجید کو سمجھنے اور صحیح تاویل کی تعیین میں نظمِ قرآن كو اوّلین اور بنیادی حیثیت حاصل ہے۔بعض علماء نے اس کیلئے علمِ مناسبت کی تعبیر اختیار کی اور بعض نے ربط کا نام دیا۔دورِ اوّل کے مفسرین اور ادباء کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انکے ہاں نظم و مناسبت کی اصطلاحیں ہم معنیٰ تھیں۔مولانا فراہی رحمہ اللہ کے ہاں نظم کا کیا مفہوم ہے،ملاحظہ کیجئے: "وبالجملة فمُرادنا بالنّظام أن تكون السّورة كاملًا واحدًا،ثم تكون ذات مناسبة بالسّورة السّابقة واللّاحقة،أو بالتي قبلها أو بعدها على بعد ما،كما قدمّنا في نظم الآيات بعضها مع بعض،فكما أن الآيات ربما تكون معترضة،فكذلك ربما تكون السّور معترضة. وعلى هذا الأصل ترى القرآن كلّه كلاما واحدا،ذا مناسبة وترتيب في أجزائه من الأوّل إلى الآخر. فتبيّن مما قدّمنا أن النّظام شيء زائد على المناسبة وترتيب الأجزاء." [1] کہ نظم سے ہماری مراد سورہ کے اجزاء کی وہ باہمی مناسبت ہے،جس کے معلوم ہونے پر پوری سورت ایک وحدت میں ڈھل جائے۔اس صورت میں کلام کا مفہوم مربوط اور ایک ہی مرکزی مضمون کا حامل نظر آتا ہے کہ پوری سورہ مشخص ہو کر سامنے آتی ہے اور کلام میں ایک جمال،ایک پختگی اور وضاحت کا ادراک ہوتا ہے۔نظم محض ایک سورت تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس سورت کی مناسبت ان سورتوں کے ساتھ بھی معلوم ہو جائے جو اس کے ساتھ متصل ہیں۔اگر ان کے ساتھ ان کی مناسبت واضح نہ ہو تو ان سورتوں کے ساتھ اس کا تعلق معلوم ہو جائے جو اس سے پہلے یا بعد میں کچھ فاصلے پر واقع ہیں۔کیونکہ عین ممکن ہے کہ جس طرح بعض آیات جملہ معترضہ کے طور پر کلام میں آجاتی ہیں اسی طرح بعض سورتیں بھی معترضہ سورتیں بن کر آئی ہوں۔نظم معلوم ہو جانے کے بعد اول سے آخر تک پورا قرآن مناسبت و ترتیب رکھنے والا اور کامل وحدت سے متصف نظر آئے گا۔اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ نظم محض مناسبت یا محض ترتیب اجزاء سے زائد ایک چیز ہے۔‘‘ گویا مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک نظم آیات کو سمجھنے کا پیمانہ یہ نہیں ہے کہ دو آیتوں یا دو مضامین کے اندر کسی قسم کا تعلّق تلاش کر لیا جائے بلکہ اس کیلئے ضروری ہے کہ اس پوری سورت کا کوئی ایک مرکزی مضمون یا کوئی ایک مرکزی نقطہ متعین کیا جائے اور پھر سورت کے تمام مضامین میں اس طرح سے ربط قائم کیا جائے کہ ان تمام مضامین کا رُخ اس ایک مرکزی مضمون کی طرف ہو جائے۔گویا پوری سورت میں کثرتِ مضامین کے باوجود وحدت کی شان نمایاں ہو جائے اور وہ سورت اپنے کامل تشخص کے ساتھ سا منے آجائے۔ مولانا كے نزدیک کسی بھی چیز کا حسن اس کے نظم میں مضمر ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر تمہیں ہمارے اس بیان پر اب بھی شک ہو یا تم مزید اطمینان یا وضاحت چاہو تو ایک فصیح و بلیغ خطبہ لو جس میں ترغیب و ترہیب کے مضامین ہوں،حکمت ہو،امثال ہوں،حجت و استدلال ہو۔اب اس خطبہ کا نظام درہم برہم کردو اور جملوں کو مطالب کی رعایت كیے بغیر آگے پیچھے کردو۔اب دیکھو گے تو معلوم ہوگا کہ اس دعویٰ و دلیل کا تعلق اس کے مقدمات سے مقاصد تک تدریج،ضروری مقامات پر وضاحت،اس کا حسن بیان،کمالِ بلاغت،اس
Flag Counter