Maktaba Wahhabi

974 - 609
مولانا فراہی رحمہ اللہ کے اس موقف کا تجزیہ مولانا فراہی رحمہ اللہ کا یہ موقف عقلی و نقلی دلائل کی روشنی میں کمزور ہے جس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ذیل میں ہم اس بحث کو ایک عملی مثال سے سمجھتے ہیں۔مثلاً مولانا فراہی رحمہ اللہ نے پہلا اُصول یہ بیان کیا ہے کہ قرآن کے نظم سے اس کا معنی قطعی طورپر متعین ہو جاتا ہے۔اب مولانا نے ہی لکھا ہے کہ قرآن کے سیاق و سباق اور نظم سے چہرے کا پردہ ثابت ہوتا ہے۔فرماتے ہیں: ’’حجاب کے مسئلہ میں تفاسیر اور فقہ میں پوری توضیح موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہاتھ اور چہرہ کھلا رکھنا جائز ہے۔میری رائے میں نظمِ قرآن پر توجہ نہ کرنے سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی ہے۔ایسی قدیم غلطیوں کا کیا علاج کیا جائے۔کون سنتا ہے کہانی میری،اور پھر وہ بھی زبانی میری۔فقہاء اور مفسرین کا گروہ ہم زبان ہے۔مگر صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ زیادہ واقف تھے۔انہوں نے ٹھیک سمجھا ہے مگر متأخرین حضرات نے ان کا کلام بھی نہیں سمجھا۔بہرحال الحقّ أحقّ أن يتّبع. میں اس مسئلے پر مطمئن ہوں اور میرے نزدیک اجنبی سے پورا پردہ کرنا واجب ہے اور قرآن نے یہی حجاب واجب کیا ہے جو شرفاء میں مروج ہے،بلکہ اوس سے قدرے زائد۔ذرا مجھے طاقت آئے تو مفصّل مضمون آپ کی خدمت میں بھیجوں۔‘‘[1] یہی رائے ان کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ کی بھی ہے۔وہ بھی قرآن کے سیاق و سباق سے عام مسلمان عورت کے لیے چہرے کے پردے کو واجب قرار دیتے ہیں۔مولانا اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ﴿ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ﴾اس ٹکڑے سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ ایک وقتی تدبیر تھی جو اشرار کے شر سے مسلمان خواتین کو محفوظ رکھنے کے لیے اختیار کی گئی اور اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔اوّل تو احکام جتنے بھی نازل ہوئے ہیں سب محرکات کے تحت ہی نازل ہوئے ہیں،لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ محرکات نہ ہوں تو وہ احکام کالعدم ہو جائیں۔‘‘[2] مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کے شاگرد جاوید احمد غامدی جو اپنے ہر دو استادوں کو اپنا امام قرار دیتے ہیں اور ان کے نظمِ قرآنی کے اصولوں پر قرآن کی تفسیر کے قائل ہیں،نظم قرآن کی روشنی میں اسی مسئلے میں ان دونوں حضرات سے مختلف تفسیر کرتے ہیں۔غامدی صاحب سورۂ احزاب کی آیت﴿يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ[3] کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ اس آیت کا سیاق و سباق اس بات کی دلیل ہے کہ اس آیت میں چہرے کے پردے کاحکم ایک عارضی حکم تھا جو صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی عورتوں کے لیے تھا۔غامدی صاحب لکھتے ہیں: ’’ان آیتوں میں﴿أَنْ يُعْرَفْنَ﴾کے الفاظ اور ان کے سیاق و سباق سے بالکل واضح ہے کہ یہ کوئی مستقل حکم نہ تھا،بلکہ ایک وقتی تدبیر تھی جو اوباشوں کے شر سے مسلمان عورتوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اختیار کی گئی۔‘‘[4] مولانا فراہی رحمہ اللہ اوراصلاحی رحمہ اللہ کے بقول عصر حاضر کی خواتین کےلیےبھی چہرے کاپردہ نصِ قرآنی اور نظمِ قرآنی سے ثابت ہے اور یہ
Flag Counter