Maktaba Wahhabi

745 - 609
امام غزالی رحمہ اللہ(505ھ)فرماتے ہیں: "فبطل أن یشترط السّماع في التأویل،وجاز لکل واحد أن یستنبط من القرآن بقدر فهمه وحد عقله. " [1] کہ بنا‏‏ بریں تفسیر قرآن میں نقل وسماع کی شرط باطل ٹھہری۔ہر شخص کیلئے اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنی عقلی استطاعت کی حد تک قرآنِ کریم سے استنباط کرے۔ نیز فرماتے ہیں: "إن في فهم معاني القرآن مجالًا رحبًا ومتّسعا بالغًا،وإن المنقول من ظاهر التفسیر لیس منتهى الإدراك فيه" [2] کہ قرآن عزیز کے معانی ومطالب کے فہم و ادراک کا میدان نہایت وسیع ہے،یہ غلط ہے کہ منقول تفسیر پر فہم وادراک کی حد ختم ہو جاتی ہے۔ راغب اصفہانی رحمہ اللہ(502ھ)لکھتے ہیں: "إنّ المذهبين هما الغلو والتّقصیر،فمن اقتصر على المنقول إليه فقد ترك کثیرًا مما احتاج إليه،ومن أجاز لکلّ أحد الخوض فيه فقد عرضه للتّخلیط ولم یعتبر حقیقة قوله تعالى:﴿لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ[3] کہ یہ دونوں مذاہب در اصل افراط وتفریط پر مبنی ہیں،جنہوں نے تفسیر منقول پر انحصار کیا ہے اس نے تفسیر کے نہایت ضروری حصہ کو نظر انداز کر دیا ہے اور جس نے ہر کس وناکس کو تفسیر قرآن کی اجازت دی ہے،اس نے کتابِ عزیز کو اختلاط وامتزاج کا نشانہ بنادیا،گویا اس نے قرآنِ کریم کی آیت كریمہ﴿لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾کاصحیح مفہوم نہیں سمجھا۔ تفسیر بالرّائے کی اقسام گذشتہ بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تفسیر بالرّائے کی دو قسمیں ہیں،ایک قسم مذموم اورناروا ہے۔دوسر ی قسم جائز اور درست ہے۔پھر جو قسم جائز ہے اس کی چند حدود وقیود ہیں۔ ڈاکٹر محمود نقراشی لکھتے ہیں: "للنّاس فيه وجهان،الأول:أن یسأل الرجل عن معنی في کتاب اللّٰه فیتسور عليه برأيه دون نظر فیما
Flag Counter