Maktaba Wahhabi

807 - 609
قرآنی معجزانہ فصاحت وبلاغت اُمت کےتمام افراد اس بات پر متفق ہیں کہ قرآنِ مجید بلیغ ترین کتاب ہے۔فصاحت و بلاغت کےجس مرتبے پر یہ کتاب فائز ہے،اس تک کوئی اور نہیں پہنچ سکی،اس کا اعتراف مولانا فراہی رحمہ اللہ کو بھی ہے،چنانچہ انہوں نے قرآنِ کریم کی فصاحت وبلاغت پر ایک مستقل کتاب ’جمہرۃ البلاغۃ‘ کے نام سے تصنیف کی اور اس میں بلاغت کے رائج تصور کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے اس کے اُصول ومبادی پر منفرد بحث کی ہے۔ قرآنِ مجید کو فصیح و بلیغ قرار دینے میں مولانا فراہی رحمہ اللہ کاموقف،امت کےجمہور علماء کے موافق ہے،لیکن باعتبارِ نتیجہ یہ موافقت قائم نہیں رہ پائی۔کیونکہ قرآن مجید کو بلیغ قرار دینے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ فہم قرآن میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت اور صحابہ کرام کا فہم لازم سمجھا جائے،جسے جمہور علماء و مفسرین لازم گردانتےہیں،لیکن مولانا فراہی رحمہ اللہ اسے قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں،بلاغت قرآن کا لازمی تقاضا فہمِ صحابہ کو تسلیم کرنا اس لیے ہےکہ بلیغ کلام کہتے ہی اسے ہیں جو مقتضائے حال کے موافق اور فصاحت پر مبنی ہو۔مقتضائے حال سے مراد یہ ہے کہ کلام ایسی کی جائے جو مخاطب کی صورتحال کےاس قدر مطابق ہو کہ مخاطب بآسانی سمجھ جائے۔ فصاحت وبلاغت کا مفہوم ذیل میں پہلے فصاحت اورپھر بلاغت کےلغوی اور اصطلاحی تصور کو بیان کیا جاتاہے: فصاحت کے لغوی معنی بیان اور ظہور کے ہیں۔[1]سیدنا موسیٰ کے قول کی ترجمانی اللہ عزو جل یوں فرماتے ہیں: ﴿وَأَخِي هَارُونُ هُوَ أَفْصَحُ مِنِّي لِسَانًا[2] اصطلاحی پہلو سے فصاحت کی تعریف کچھ یوں ہے: "هي عبارة عن الألفاظ الظّاهرة المعنی،المألوفة الاستعمال عند العرب. "[3] کہ فصاحت ان الفاظ سےعبارت ہے جن کےمطالب ظاہر ہوں اور عرب کےہاں ان کااستعمال معروف ہو۔ فصاحت کبھی کلمہ کی صفت ہوتی ہے،کبھی کلام کی اور کبھی متکلّم بھی۔چنانچہ کلمہ فصیحہ،کلام فصیح اور متکلم فصیح کےالفاظ عام رائج ہیں۔[4] بلاغت کا مفہوم لغت کی روسے اس طرح بیان کیا جاتاہے کہ یہ فعل بلغ سے مشتق ہے۔اس کے معنی إدراك الغاية یا
Flag Counter