Maktaba Wahhabi

793 - 609
نظم قرآن سے استفادہ کی حدود قرآن کریم علوم ومعارف کا بحر پیکراں اور علم وحکمت کا ایک خزانہ ہے،جس کے موتی کبھی شمار نہیں کیے جا سکتے۔ارباب مسلم صدیوں سے قرآن حکیم میں غور وفکر کر رہے ہیں،جس کے نتیجے میں بے شمار نکات و لطائف منصّۂ شہود پر آئے ہیں،یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گا۔قرآنی نکات و دقائق کا ایک اہم گوشہ ’ نظم ومناسبت‘ بھی ہے۔ماہرین علوم قرآن نے اس کو بھی شائستہ التفات ٹھہرایا ہے اور اپنے نتائج فکر پیش کیے ہیں۔زیر نظر فصل میں اسی پر بحث کی جا رہی ہے۔ نظم قرآن کا آغاز و ارتقاء یہ بات معلوم نہیں کہ قرآن مجید کے نظم و ربط کے سلسلہ میں سب سے پہلے کس صاحب علم نے گفتگو فرمائی،البتہ متقدمین میں سے جن اصحاب نے اس سلسلہ میں کلام کیا ہے۔ان میں سے امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ(276ھ)،ابوالحسن علی بن عیسیٰ رمانی معتزلی(383ھ)،قاضی عبدالجبار اسد آباد معتزلی(415ھ)،امام خطابی(388ھ)،ابن جعفر با قلانی اشعری(403ھ)،عبدالقاہر جرجانی(م471ھ)کے نام سر فہرست ہیں۔ ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے تأویل مشکل القرآن میں،رمانی نے النکت فی اعجاز القرآن میں،قاضی عبدالجبار نے المغخافی ابواب التوحید والعدل کی 16 جلد میں،خطابی نے البیان فی اعجاز القرآن میں،با قلانی نے اعجاز القرآن میں،جرجانی نے دلائل الا عجاز میں اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ان اصحاب نے نہ صرف یہ کہ اپنی تصنیفات میں نظم قرآن(نظم کلام)کی اصطلاح استعمال کی،بلکہ نظم کلام کو قرآن مجید کے اعجاز کا محل بھی قرار دیا۔لیکن ان کے ہاں نظم کلام سے مراد وہ مفہوم نہیں تھا جسے متاخرین میں مولانا فراہی رحمہ اللہ و اصلاحی رحمہ اللہ نے متعارف کروایا ہے،بلکہ ان کے ہاں نظم قرآن سے مراد یہ تھا کہ قرآن مجید کے محض الفاظ و کلمات ہی معجزانہ حیثیت نہیں رکھتے اور نہ فقط ان کے معانی کا یہ حال ہے،کیونکہ یہی الفاظ و معانی تو عربوں کے ہاں بھی مروج تھے۔البتہ ان الفاظ و معانی کی ترکیب سے جو کلام قرآنی آیات اور قرآنی جملوں کی شکل میں پیش ہوتا تھا،وہ معجزہ تھا اور اس جیسی ترکیب پر مبنی ایک سورت بھی پیش کرنے سے کفار عاجز آگئے تھے۔ امام خطابی رحمہ اللہ اسی پس منظر میں فرماتے ہیں: ’’قرآن مجید کے معجزہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا نظم عمدہ الفاظ فصیح اور معانی حسین ہیں۔اس نے توحید کی تعلیم دی،شرک سے اجتناب کی تلقین کی،اطاعت الہٰی پر ابھارا اور حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے ضابطے بتائے،وعظ و تبلیغ اور امر با لمعروف و نہی عن المنکر کے اصول واضح کیے اور ان ساری تعلیمات کو نظم کی لڑی میں اس طرح منسلک کردیا کہ ذرا سادھا گا ٹوٹا اور سارے موتی منتشر ہو گئے۔قرآنی بلاغت ادب کے تمام اسا لیب کی جامع ہے جس کی نظیر انسانی وجود پیش نہیں کر سکتا۔الفاظ کو اس طرح مربوط بنادیا گیا ہے کہ اگر انہیں ان کے مخصوص مقام سے ہٹا کر کہیں اور رکھ دیا جائے تو مفہوم گڑ بڑ ہو جائے یا وہ چاشنی اور رونق باقی نہ
Flag Counter