Maktaba Wahhabi

1083 - 609
﴿فَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنِ اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ[1] کہ پس ہم نے وحی کی موسیٰ علیہ السلام کی طرف کہ آپ اپنا عصا دریا پر ماریں تو وہ سمندر پھٹ گیا۔پس اس کا ہر حصہ یوں ہو گیا جیسا کہ کوئی بہت بڑاپہاڑہو۔ اس آیتِ مبارکہ کے بیان کے مطابق سیدنا موسیٰ کے عصا مارنے سے سمندر دو حصوں میں پھٹ گیا نہ کہ کسی ہوا کے چلنے سے ایسا ہوا۔اس آیت سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ سمندر کے ہر حصے کا پانی معجزاتی طور پر ایک پہاڑکی مانندکھڑا ہو گیا تھا۔فراہی رحمہ اللہ صاحب کی تفسیر قرآن کے اس بیان کے صریحاً خلاف ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَأَسْرِ بِعِبَادِي لَيْلًا إِنَّكُمْ مُتَّبَعُونَ()وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا إِنَّهُمْ جُنْدٌ مُغْرَقُونَ[2] کہ پس آپ میرے بندوں کو رات کے وقت میں لے کر چلیں،بے شک آپ کا پیچھا کیا جائے گا۔اورآپ دریاکو ٹھہرا ہوا چھوڑیں،پس وہ ایک ایسا لشکر ہے جو غرق کیا جائے گا۔ اس آیت میں اللہ عزو جل نے یہ بیان کیا ہے کہ سیدنا موسیٰ نے جب دریا پار کیا تو اپنے پیچھے ٹھہرا ہوا چھوڑا یعنی اللہ عزو جل نے دریا کے پانی کو دو حصوں میں بانٹ کر پہاڑوں کی مانند جس طرح کھڑا کر دیا تھا،دریاکی وہ کیفیت سیدنا موسیٰ کے گزر جانے کے بعد بھی قائم رہی تا کہ فرعون اور اس کے لشکر بھی دریا کو اس حالت میں دیکھتے ہوئے اسے عبور کرنے پر آمادہ ہوں۔ دوسری مثال مولانا فراہی رحمہ اللہ نے سورۂ ذاریات کی تفسیر میں سابقہ اقوام کی ہلاکت اور ان پر نازل شدہ عذاب کو ایک لفظ میں جمع کرنے کی کوشش ہے اور وہ لفظ ’ہوا‘ ہے۔مولانا اپنے نظم قرآن کے تصور میں اس قدر مبالغہ کرتے ہیں کہ وہ سابقہ اقوام پر نازل شدہ عذاب کو بھی ایک نظم میں پرونا چاہتے ہیں جس کا عمود انہیں ’ہوا‘ ملا۔قومِ نوح،قومِ عاد،قومِ ثمود،قومِ لوط اور آلِ فرعون وغیرہ پر نازل شدہ عذاب کی قرآنی اور توراتی تفصیلات کو مولانا توڑ مروڑ کر اپنے اس منظّم فکر کے مطابق بنانے کی کوشش کرتے ہیں،جو ان کے ذہن میں پہلے ہی سے بیٹھ چکا ہے۔مولانا کی تفسیر میں یہ معاملہ نظر نہیں آتا کہ قرآنی الفاظ یا توراتی تشریحات جس طرف لے کر جانا چاہیں،وہ اس کے پیچھے چلے جاتے ہوں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ قرآن کے نظم کی طرح اپنی تفسیر اور تشریح کا بھی ایک نظم اور عمود بناتے ہیں اور اب اس نظم اور عمود کو ثابت کرنے کے لیے ظاہری و باطنی ہر قسم کی تاویلات کی بارش برسا دیتے ہیں۔سابقہ اقوا م پر نازل شدہ عذاب کا عمود مولانا نے ’ہوا‘ کے عذاب کو بنایا ہے اور قرآن میں جہاں بھی ان سابقہ اقوام پر کسی دوسرے عذاب مثلاً پانی،زلزلے،زور کی چیخ اور آواز اور پتھروں کی بارش وغیرہ کا تذکرہ ہے،اس کی مولانا نے ایسی تاویل کی ہے کہ یا تو وہ ہوا کے عذاب کا ایک تابع جز قرار پائے یا اس سے مراد خود ہوا ہی ہو۔آلِ فرعون پر پانی کے عذاب کی مولانا نے جس طرح ہوا کے عذاب سے تاویل کی ہے،وہ ہم اوپر بیان کر
Flag Counter