Maktaba Wahhabi

650 - 609
اس کتاب کی غرض وغایت کے بارے میں مولانا فرماتے ہیں: "غاية هذا الكتاب هي معرفة الأصول التي تُعين على فهم القرآن حسب أفهام البشر. وهذه الأصول تنقسم على قسمين،الأوّل:ما يعصم عن الزّيغ في التأويل،والثاني:ما يَهدي إلى الحكم التي يتضمّنُها كتاب اللّٰه. والأمر الجامع لهذين هو التفكّر في نظم القرآن. فالنّظم هو الحبل المتين الذي يعصم من يعتصم به عن الزّيغ،وهو السّراج المنير الذي يدل على الحكم،فإن الآيات إنما تنتظم بما تتضمّن من الحكمة فإنها هي الجامعة." [1] الرّأي الصّحیح في من هو الذّبیح مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ نے اپنی اس کتاب میں قربانی کی حقیقت اور اسلام میں اس کی اہمیت پر مفصّل بحث کی ہے۔سیدنا اسمٰعیل کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے بارے میں مولانا کی رائے ہے کہ سیدنا ابراہیم کا خواب دراصل ایک تمثیل تھی جس کی تعبیر یہ تھی کہ اسمٰعیل کو اللہ کی نذر کر کے بیت اللہ کا خادم بنا دیا جائے۔فرماتے ہیں: ’’شریعتِ خداوندی کے عام مزاج سے یہ بات بہت بعید ہے کہ اللہ عزو جل اپنے کسی بندہ کو صریح الفاظ میں اس بات کا حکم دے دے کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر ڈالے،البتہ خواب میں یہ بات دکھائی جا سکتی ہے،کیونکہ خواب تعبیر کی چیز ہوتی ہے۔اگر خواب میں کسی کو ذبح کرنا دکھایا جائے تو اس کی سب سے قریب ترین تاویل یہ ہے کہ اس کو خدا کی نذر اور اس کے گھر کا خادم بنا دیا جائے۔‘‘[2] اس کے بعد انہوں نے اس موضوع پر مدلل گفتگو کی ہے کہ سیدنا ابراہیم کے دو بیٹوں سیدنا اسمٰعیل اور سیدنا اسحٰق علیہما السلام میں سے ذبیح کون ہے؟ اور یہ واضح کیا ہے کہ یہ مسئلہ محض تفسیر کا ایک علمی مسئلہ نہیں بلکہ مذاہب اور اقوامِ عالم کی تاریخ نیز عمرانیات کے ان مہمات مسائل میں سے ایک ہے جس کے نتائج بہت دور رس ہیں۔ اس كتاب كی وجۂ تالیف کے بارے میں سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’سیرت جلد اوّل کے مقدمے میں حضرت اسمٰعیل کی سکونت اورقربانی کے متعلّق جو باب ہے اس کا مواد مولانا حمیدالدین ہی نے بہم پہنچایا تھا،جس کو آئندہ چل کر مولانا حمید الدین صاحب مرحوم نے بڑھا کر اورپھر اور زیادہ استقصاء کر کے 'الرّأي الصّحیح في من هو الذّبیح' کے نام سے الگ شائع کر دیا۔‘‘[3] مولانا فراہی رحمہ اللہ نے اس کتاب کو مقدّمہ کے علاوہ تین ابواب اورایک خاتمہ پر تقسیم کیا ہے۔ بابِ اوّل میں انہوں نے تورات اورعلمائے اہلِ کتاب کے اقوال سے بحث کی ہے،خود ان کے بیانات اور اعترافات سے استدلال کر کے ثابت کیا ہے کہ ذبیح حضرت اسحٰق نہیں حضرت اسمٰعیل ہیں،تاکہ یہ دلائل اہلِ کتاب پر حجّت ثابت ہو سکیں۔ بابِ دوم میں قرآنِ مجید کے نصوص اور ان آیات پر استدلال کی بنیاد رکھی گئی ہے جو اس مسئلے کے بارے میں وارِد ہیں۔ بابِ سوم میں اَحادیث وآثار اور اکابر علمائے اسلام کے اقوال کا جائزہ لیا گیا ہے،نیز ما قبل اسلام احوالِ عرب اور اشعار جاہلیت
Flag Counter