Maktaba Wahhabi

1059 - 609
جہاں تک اما م احمدبن حنبل رحمہ اللہ کاتعلّق ہے توان سے اس معاملہ میں دو مختلف نوعیت کی روایتیں آئی ہیں جن میں سے بلاشبہ ایک روایت کے مطابق وہ بھی سنت سے نسخ قرآن کے قائل نظرنہیں آتے۔لیکن جب ان سے دومختلف نوعیت کے اقوال منقول ہیں تو ان میں سے صرف ایک خاص نوعیت کی روایت کے مدلول کو ترجیح دینے کی کوئی لائق ترجیح وجہ نظر نہیں آتی۔پھر جن لوگوں کی نگاہ امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کے عمومی طرزِ عمل پرہے وہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ ان تمام روایات کی صحت وحجیت کے قائل ہیں جوقرآن کے ظاہری حکم پر نسخ کا حکم رکھتی ہیں،لیکن یہ اس کی تفصیل کاموقع نہیں ہے۔ مولانافراہی نے امام شافعی اورامام احمدبن حنبل رحمہما اللہ کے ساتھ دیگرمحدثین کو بھی اسی فکر کا حامل بیان کیا ہے جو سراسر خلافِ واقعہ بات ہے۔مولانا فراہی رحمہ اللہ تو اب اس دُنیا میں باقی نہیں رہے البتہ ان کےتلامذہ اور اخلاف ضرورموجود ہیں،پس ان پر یہ اخلاقی فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ مولانا کےاس دعویٰ کو بدلائل ثابت کر دکھائیں۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ کا یہ قول بھی کہ ’’رسول،اللہ کے کلام کو منسوخ کر سکتا ہے۔اس طرح کے مواقع میں تمام تر راویوں کے وہم اور ان کی غلطی کو دخل ہے۔اور فریقین کے دلائل پر غور کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ حق کیا ہے۔‘‘ دراصل منصبِ رسالت کے فرائض،اختیارات،طریقہ کار اور سنن نبوی کی حقیقت سے لا علمی کا نتیجہ ہے۔کوئی شخص نہ یہ کہتاہے اور نہ ہی مانتا ہے کہ کوئی رسول از خود یا اپنی مرضی کے مطابق کلامُ اللہ کومنسوخ کر سکتا ہے۔اگر واقعی کوئی شخص ایسا عقیدہ رکھتا ہے تو جمہور علماء کے نزدیک بلاشبہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے،برخلاف اس کے سلف سے خلف تک تمام اہلِ علم وحی سے نسخ وحی کے قائل رہے ہیں۔اورچونکہ سنت بھی وحی ہوتی ہے لہٰذاسنت سے قرآن کا نسخ فی الحقیقت وحی سے وحی کا نسخ ہوا جو بالاتفاق جائز ہے۔ مخالف قرآن یا زائد از قرآن احادیث مولانا فراہی رحمہ اللہ نے قرآنِ حکیم سے زائد احکام رکھنے والی احادیث سے متعلّق بھی منفرد مسلک اختیار کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں: ’’تیسری قسم میں وہ احکام داخل ہیں جو کتابِ الٰہی میں موجود نہیں ہیں،لیکن انکے ذریعہ کتاب پر اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس ذیل میں ہم نے سنّت کو مستقل اصل قرار دیا ہے،اسلئے کہ اللہ نے بغیر کسی تخصیص کے رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔اور رسول کو حکم دیا ہے کہ وہ جو فہم عطا فرمائے اسکے مطالق فیصلہ کریں،خواہ یہ قرآن کے ذریعہ ہو یا اس نور اور حکمت کے ذریعہ جس سے اللہ نے آپکے دل کو معمور کر دیا تھا۔چوتھی قسم ان احکام کی ہے جن سے قرآن پر اضافہ ہوتا ہے،لیکن قرآن ان اضافوں کا متحمل نہیں۔پانچویں قسم ان احکام کی ہے،جو قرآن سے متعارض ہوں۔یہ آخری دونوں قسمیں فرضی ہیں جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں کیونکہ ان سے قرآن کا جلی وخفی نسخ لازم آتاہے۔علماء کے درمیان جو اختلاف ہوا ہے وہ انہیں احکام میں ہوا ہے،لیکن یہ احکام گنے چنے ہیں۔اگران کے بارہ میں کتاب وسنّت کے درمیان توفیق پیداکی جا سکے تونزاع ختم ہوسکتا ہے۔‘‘[1] مولانانے توفیق کی چندمثالیں بھی دی ہیں ان میں حدیث رؤیت باری تعالیٰ،ماں کےحقوق،نکاح میں پھوپھی وبھتیجی کوجمع کرنےکی ممانعت وغیرہ۔[2]
Flag Counter