Maktaba Wahhabi

669 - 609
اللّٰهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا[1] ہے۔﴿إِلَّا اللّٰهُ﴾پر وقف کرنے سے معنیٰ یہ بنتا ہے متشابہات کی تاویل اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔اور اگر یہاں وقف نہ کیا جائے تو معنیٰ یہ ہے کہ متشابہات کا معنیٰ راسخ العلم علماء بھی جانتے ہیں۔ یہ دونوں کلمات کی علیحدہ علیحدہ تعریف ہے،اگر ان دونوں کو ملایا جائے تو ’اصولِ تفسیر‘ مرکبِ اضافی ہے،جس کا معنی ہے ’قرآن کریم کے علوم ومعارف کے حصول کے بنیادی قوانین‘۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ(728ھ)فرماتے ہیں: "مجموعة القواعد التي ینبغي أن یسیر عليها المفسّرون في فهم المعاني القرآنية وتعرف العبر والأحکام من الآیات"[2] کہ اصولِ تفسیر ان قواعد کے مجموعے کا نام ہے جن کا لحاظ رکھنا مفسرین کے لئے معانی قرآن کے فہم اور آیات سے مستنبط حِکم واحکام کی پہچان کے لئے نہایت ضروری ہے۔ تاریخ اُصولِ تفسیر قرآن پاک کے نزول کا بنیادی مقصد اس کی آیات کی تلاوت اور احکام میں غور وفکر اور ان سے نصیحت حاصل کرنا ہے،لیکن اگر یہ ہی واضح نہ ہو کہ قرآنِ کریم کے احکام میں تدبّر کیسے کرنا ہے؟ وہ کیا اُصول وضوابط ہیں جن کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قرآن کریم میں غور وفکر کیاجائے؟ تو یہ مقصد فوت ہوجاتا ہے۔لہٰذا اُصول تفسیر کی تدوین اگرچہ بعد میں ہوئی ہے،لیکن ان کی تاریخ لا محالہ اسی وقت سے شروع ہوتی ہے،جب سے قرآن کریم کا نزول شروع ہوا۔ قرآنِ كريم جس قوم پر نازل کیا گیا وہ قوم اُمی تھی جو نہ لکھ پڑھ سکتی تھی اور نہ حساب وکتاب کرسکتی تھی۔لیکن وہ قلب وزبان سے محروم نہ تھی۔ان کے ہاں شعر وشاعری اور ضرب الامثال منتشر تھے جو در اصل ان کے تجرباتِ زندگی کا نچوڑ تھے،ان کے اسالیبِ کلام متنوّع ہوا کرتے تھے۔ان کا اندازِ تکلّم اور طرزِ تخاطب تنوع وتفنّن کی وجہ سے اسرار وحکم سے بھرپور ہوا کرتا تھا،جس میں حقیقت ومجاز،تشبیہ واستعارہ،تصریح وکنایہ اور ایجاز واطناب سب انواعِ سخن شامل تھے۔ اپنی زبان دانی پر انہیں اتنا فخر تھا کہ وہ اپنے سوا تمام قوموں کو،خواہ وہ تہذیب وتمدّن کے اعتبار سے ان پر کتنی ہی فائق اور اس دَور کی سپر پاور ہی کیوں نہ ہوں،عجمی یعنی گونگا کہا کرتے تھے۔اور ان کا یہ فخر بے جا بھی نہ تھا،واقعی ہی وہ اپنی زبان کی فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے دیگر تمام قوموں پر ہر لحاظ سے حاوی تھے،جس کی صرف یہی ایک دلیل کافی ہے کہ قرآن کریم اس دَور کی عربی زبان کے مطابق اُترا۔اور سنتِ الٰہی بھی ہمیشہ یہی رہی ہے کہ وحی انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کی قوموں کی زبان میں اُترتی ہے،لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزۂ قرآنی بھی باقی انبیاء کرام علیہم السلام کے معجزات کی طرح اپنی قوم کے بالکل حسبِ حال تھا۔
Flag Counter