Maktaba Wahhabi

600 - 609
مقابلے میں میٹھی چیزیں زیادہ پسند تھیں۔گڑ کی ڈلی بھی منہ میں ڈال لیتے تھے۔‘‘[1] مولانا امین احسن اصلاحی،مولانا فراہی کے آخری عمر کی غذا کا تذکرہ کرتے ہوئےرقم فرماتے ہیں: ’’مولانا کی زندگی کے آخری پانچ سال میری آنکھوں کےسامنے گذرے ہیں۔اس دور میں انہوں نے اپنی زندگی کا معیار تقریباً وہی بنا لیا تھا جو مدرسۃ الاصلاح(سرائے میر،اعظم گڑھ)کے غریب اساتذہ اور طلبا کا تھا۔ہمارے ہی ساتھ بیٹھ کر جو دال دلیا میسر آتا تھا،کھا لیتے۔ہماری ہی طرح سادہ اور غریبانہ کپڑے پہنتے،ہمارےہی ساتھ ٹاٹ پر بیٹھتے۔‘‘[2] مولانا فراہی رحمہ اللہ کی زندگی میں سادگی تھی،لیکن چائے وہ اہتمام سے پیتے تھے اور دن میں صرف دوپیالی،ایک صبح ایک شام کو پیتے تھے۔چائے کی پتی لپٹن گرین لیبل استعمال کرتے تھے،دودھ اور شکر کےلئے بھی ضروری تھا کہ عمدہ سے عمدہ ہو۔[3] پہلے حقہ نہیں پیتے تھے پان کھاتے تھے،پھر پان چھوڑ کر حقہ پینے لگے۔مدرسۃ الاصلاح کے ایک سابق استاد حکیم محمد احمد صاحب لہراوی بہت حقہ پیتے تھے اور دوسروں کو بھی حقہ پینے کی باقاعدہ تلقین کرتے تھے،حتیٰ کہ طلبہ کو اس کی افادیت کی باتیں بتاتے۔وہ کہتے تھے کہ حقہ پیا کرو،یہ کاسر ریاح ہے۔مولانا فراہی رحمہ اللہ کا حقہ پینا بھی انہی حکیم صاحب کا فیضان تھا۔[4] جسمانی صحت مولانا کو سر درد کی شکایت اکثر رہتی تھی،لیکن پھر بھی ان کی جسمانی صحت قابل رشک تھی،سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’دائمی درد سر کی شکایت کے سوا قوی بہت اچھے تھے۔‘‘[5] مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وہ ابتداء سے ور زش کے عادی تھے اور ہمیشہ اس کا التزام رکھتے تھے،اس کا اثر ان کی صحت پر بہت نمایاں تھا۔‘‘[6] ایک جگہ مولانا اصلاحی،مولانا فراہی رحمہ اللہ کی ورزش کاذکر یوں کرتے ہیں: ’’صبح اٹھ کر پابندی سے پہلوانوں والی ورزش کرتے،کچھ پی ٹی قسم کی ورزش بھی کرتے تھے۔میں کبھی کبھی صبح پہنچ جاتا تومعلوم ہوتا ورزش کر رہے ہیں۔ورزش ڈنٹر وغیرہ قسم کی کرتے تھے،پھریہا میں مولانا کے ایک ہم عمر پہلوان تھے وہ اعتراف کرتے تھے کہ میں کبھی مولانا کا پنجہ نہیں توڑ سکا۔ان کا نام گھروان تھا،جوانی میں سنا ہے بہت اچھے پہلوان تھے،برادری ہی کے آدمی تھے۔‘‘[7]
Flag Counter