Maktaba Wahhabi

601 - 609
دن رات کے معمولات امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ مولانا فراہی رحمہ اللہ کے شب وروز کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’معمول یہ تھاکہ شب میں ڈھائی تین بجے اٹھ جاتے۔شب بیداری کی یہ عادت انہوں نے بچپن میں ڈالی اور آخر عمر تک برابر قائم رہی۔اسی وقت اپنی چار پائی اور بستر وغیرہ خود ٹھیک کر لیتے تھے کہ شاگردوں یا ملازم کو کوئی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔اس کے بعد تہجد پڑھتے او ر اس سے فارغ ہونے کے بعد اگر طبیعت اچھی ہوتی تو کچھ تصنیف کا کام کرتے۔دن میں وہ تصنیف کا کام بہت کم کرتے تھے۔دن میں زیادہ تر مطالعہ کرتے یا شاگردوں اور اہل علم حضرات کو وقت دیتے۔‘‘[1] مولانا عنایت اللہ سبحانی،جو مدرسۃ الاصلاح کے طالب علم اورمولانا اختر احسن اصلاحی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے،مولانا فراہی رحمہ اللہ کے دن رات کے معمولات کا تذکرہ یوں کرتے ہیں: ’’رات کوہمیشہ دو بجے بستر چھوڑ دیتے۔اٹھ کر تھوڑی سی ورزش کرتے،پھر غسل کرتے،حقہ پیتے اورتازہ دم ہو کر اپنے رب کے حضور حاضر ہو جاتے اور دیر تک اذکار و نوافل اور دعا و مناجات میں مصروف رہتے۔مولانا اختر احسن اصلاحی 1958ءبھی اپنے مشفق اور نیک سیرت استاد کے ساتھ ہی بستر سے اُٹھ جاتے۔علامہ فراہی جب تک ورزش کرتے،مولانا ان کے غسل کا بندو بست کرتے،نہانے کے لئے حسب ضرورت گرم یا سرد پانی کا اہتمام کرتے۔استاد امام جب تک غسل فرماتے ان کے لئے چلم وغیرہ چڑھا کرحقہ تیار کر دیتے،پھر جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو مولانا بھی پہلو میں کھڑے ہو جاتے۔‘‘[2] دین کےساتھ تعلق مولانا فراہی رحمہ اللہ کے متعلق ان کے جاننے والوں میں ہمیشہ یہ بحث رہی ہےکہ ان کا علم زیادہ تھا یا تقویٰ؟ اور واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں پہلووں میں سے یہ متعین کرنا مشکل ہے کہ ان کی زندگی کا راجح پہلو کون سا تھا؟ مولانا فراہی رحمہ اللہ کا گھرانہ شروع ہی سے علمی خاندانوں میں شمار ہوتا تھا،جس کے اثرات مولانا پر ہونا ایک فطری امر تھا۔مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’مولانا نہایت عقلیت پسند اورفلسفی مزاج ہونے کے باوجود الحاد اورتشکیک کے حملہ سےبرابر محفوظ رہے۔زندگی کے کسی دور میں بھی ان کا تعلق خدا سے نہیں ٹوٹا۔میں نے ایک مرتبہ مولانا سے سوال کیا کہ آپ پر کوئی دور بے قیدی اور آزادی کا بھی گذرا ہے؟ فرمایا نہیں۔پھر فرمایا کہ جس زمانہ میں علی گڑھ میں پڑھتا تھا،اس زمانہ میں ایک مرتبہ میرے ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہوا تھا کہ خدا ہے یا نہیں؟ فرماتے تھے کہ اس سوال پر کوئی دو گھنٹے برابر غور کرتا رہا،بالآخر میں یہ فیصلہ کر کے اُٹھا کہ خدا ضرور ہے۔اس کے بعد پھر مجھے اس سوال نے کبھی پریشان نہیں کیا۔‘‘[3] دین اسلام میں نماز کی اہمیت مسلم ہے اور اسے دین کا ستون قرار دیا گیا ہے،یہی وجہ تھی کہ مولانا فراہی رحمہ اللہ نماز کا خصوصی طور پر اہتمام کرتے اور اس کے جملہ تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے تھے۔
Flag Counter