Maktaba Wahhabi

826 - 609
تفسیر سورہ عبس مولانا فراہی رحمہ اللہ سورة عبس کی تفسیر میں جمہور سے ہٹ کر اس امر کے انکاری ہیں کہ اللہ عزو جل نے نابینا صحابی سیدنا عبداللہ بن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ سے اعراض کرنے پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر عتاب کیا ہے۔نیز وہ اس بات کو بھی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ مذکورہ صحابی آپ سے کچھ سیکھنے کے لئے آئے تھے اور جن روایات میں(علمني مما علمك اللّٰه)کے الفاظ ہیں وہ ایسی روایات کو یکسر مسترد کردیتے ہیں۔جبکہ جمہور مفسرین کے نزدیک اس سورۃ میں اللہ عزو جل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عتاب کیا ہے اور متعدد روایات سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عبداللہ بن اُم مکتوم تعلیم حاصل کرنے کے لئے تشریف لائے تھے۔نیز ان کا تعلیم حاصل کرنے کے لئے آنا یا ویسے ہی آنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔اصل تنبیہ تو اس امر پر نازل ہوئی ہےکہ آپ نے اس سے اعراض کرتے ہوئے کفار کو ترجیح دی کہ شاید وہ اسلام قبول کرلیں۔ مؤقف فراہی رحمہ اللہ مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک سورہ عبس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے،کفار کو عتاب ہے۔نیز سید عبداللہ بن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ کچھ سیکھنے کے لئے نہیں آئے تھے۔بلکہ ویسے ہی چلے آئے تھے اور یہاں اللہ عزو جل کے عتاب کا رخ کفار کی طرف ہی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ و دعوت میں اصرار کی اس حد سے روکا ہے جوآپ کے منصب کے شایان شان نہیں ہے۔مولانا فراہی رحمہ اللہ اپنی کتاب:مجموعہ تفاسیر فراہی میں اس سورہ کا عمود(یعنی نظم)بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ سورہ منذرات میں سے ہے۔یعنی ان سورتوں میں سے ہے جو مخاطب کوجھنجوڑنے اور بیدار کرنے کے لئے نازل ہوئی ہیں۔ابتدائے بعثت کی اکثر سورتوں کا یہی حال ہے۔البتہ ان کے اسلوب بیان مختلف ہوگئے ہیں۔مثلاً اسی سورہ میں انذار کا ایک نیا پہلو یہ اختیار کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کے پیچھے وقت ضائع کرنے سے روکا گیا ہے جو انکار اور نافرمانی پراڑے ہوئے ہیں اور کسی طرح اپنی جگہ چھوڑنا نہیں چاہتے۔پھر اسی مضمون سے متعلق آگے چل کر،کچھ اور باتیں آگئی ہیں۔مثلاً چند لفظوں میں ان کی ہٹ دھرمی پرملامت ہے۔پھر ان کی ضد اور بے پروائی کی خرابیاں بیان ہوئی ہیں،پھر ان کے انجام کی تفصیل ہے اور آخر میں مقابلہ کے اسلوب پر ان لوگوں کا بھی ذکر آگیا ہے جنہوں نے ان سے الگ ہوکر ایمان و اطاعت کی راہ اختیار کرلی ہے۔اس اسلوب کے چند فوائد قابل ذکر ہیں۔مثلاً: 1۔ توضیح مطلب کے لئے مخالف پہلو کا ذکر مفید ہوا کرتا ہے۔ 2۔ اس میں ترتیب کے ساتھ ترغیب کا پہلو بھی پیدا ہوگیا ہے جوایک جامع اور موثر انداز کلام ہے۔ 3۔ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اشارہ ہے کہ آپ کی توجہ کے اصل مستحق مومنین ہیں نہ کہ کفار۔مومنین کا حق مقدم ہے۔ سابق سورہ سے اس کا ربط یوں ہے کہ اس کے خاتمہ کی آیت﴿إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ يَخْشَاهَا﴾تھی۔یعنی کہ تمہاری نصیحتوں کو وہی قبول کرسکتے ہیں جو قیامت سے ڈرتے ہیں۔ پس اس سورہ میں یہ بتا دیا کہ پیغمبر ایسے لوگوں سے اصرار و لجاجت کرنے پر مامور نہیں ہے جو قیامت کے خوف سے بے پرواہ ہوچکے ہوں۔یہ مضمون قرآن مجید میں باربار دہرایا گیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی رافت و شفقت کے سبب سے،
Flag Counter